نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکا نے ترک صدر طیب اردوان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی ترکی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جوزف بائیڈن نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری ترک فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کابل ایئرپورٹ فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی غیر ملکی وفود کی افغانستان آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتا رہے گا۔

 امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سُلیوان کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی ترکی کے حوالے کرنے کا فیصلہ صدر جو بائیڈن اور ترک صدر طیب اردوان کے درمیان برسلز میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔

امریکی مشیرِ قومی سلامتی جیک سُلیوان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تنازع اور تناؤ کا باعث بننے والے معاہدوں کا طویل مدتی حل نہیں نکل سکا تاہم دونوں رہنماؤں نے ان معاملات پر بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے ترکی کا روس سے ایس-400 دفاعی نظام خریدنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے ساتھ کئے گئے امریکی جیٹ فائٹر طیاروں کی خریداری کے معاہدے کو منسوخ کردیا تھا اور یہ معاملہ تاحال تعطل کا شکار ہے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان نے کہا تھا کہ امریکا سے ہونے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ترک افواج بھی افغانستان سے نکل جائیں۔

قبل ازیں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ملک ترکی نے پیشکش کی تھی کہ امریکی اور نیٹو افواج کے واپس جانے کے بعد بھی ترک افواج کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے افغانستان میں قیام کر سکتی ہیں۔ افغانستان میں تعینات ترک افواج بھی نیٹو مشن کا حصہ ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق تمام غیر ملکی افواج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکال لی جانا ہیں۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ امن ڈیل کے تحت افغانستان میں تعینات تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہو جانا چاہیے۔

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ترکی کی اس پیشکش کی ’سختی سے مخالفت‘ کی ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی کی حفاظت اور اسے چلانے کے لیے اپنے فوجی روک سکتا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی فوج کو یہاں رکھیں، چاہے وہ امریکہ ہو یا ترکی۔ ہم اس پر متفق نہیں۔ اگر ترکی کی ایسی کوئی نیت ہے تو اسلام امارات (طالبان حکومت کا نام جو وہ اقتدار میں استعمال کرتے تھے) اس کی مخالفت کرے گی، ہم ملک میں کسی بھی غیرملکی فوج کو قبول نہیں کریں گے، چاہے کوئی بھی نام ہو۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ وہ یہاں 20 سال تک رہے ہیں اور جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ انہیں غلطی نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ افغانستان میں اپنی فوج رکھنا چاہتے ہیں تو بغیر کسی شک کے افغان ان کے ساتھ بھی دیگر حملہ کرنے والوں جیسا سلوک ہی کریں گے۔

طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کے مطابق اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے غیرملکی افواج کی موجودگی نہ تو قبول کی اور نہ ہی کریں گے۔

ڈاکٹر محمد نعیم نے بتایا کہ افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف افغان کی ہے اور غیرملکی شہریوں کا تحفظ بھی اسلام اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اس ملک کی دمہ داری ہے جہاں وہ رہ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے