تحریر:ابومحمد الفاتح

حالیہ دنوں کابل انتظامیہ نے ایک دفعہ پھر تشدد کا دعوی سر پر اٹھایا ہےـ امارتِ اسلامیہ کو موردِ الزام بنا کر آئے روز نت نئے بہتان لگارہی ہےـ تازہ ترین کارروائی یہ ہے کہ اپنے اس بے بنیاد دعوے کو مختلف پیرایوں اور جھوٹ ومکر کے مختلف سانچوں میں ڈھال کر افغانستان کے اندرونی حالات اور حقیقی صورتحال سے یکسر ناواقف، افغانستان سے ہزاروں میل دور کسی عالم کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے فتوی طلب کیا جاتا ہے جس پر وہ بھی صورتحال معلوم کئے بغیر کوئی مبہم سافتوی جاری کرتا ہےـ اس فتوی کو لے کر کابل انتظامیہ اپنی طرف سے ضروری ترامیم کرکے بغلیں بجاتی ہے کہ طالبان تشدد کرتے ہیں اور ان کا یہ تشدد ناجائز ہے وغیرہ وغیرہ ـ
ابھی 28 مئی کو کابل انتظامیہ کے مشیر برائے سلامتی کونسل حمداللہ محب نے امارتِ اسلامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاـ تشدد کے طعنے دئیے اور طرح طرح کے بہت سارے الزام لگادئیےـ یہ الزامات پھر زر وزور کے بل بوتے میڈیا سے پورے ملک میں عام کروادئیے گئے تاکہ کسی طرح اس پروپیگنڈا کو ہوا دے سکے اور اصل حقیقت نظروں سے اوجھل رہےـ
حالانکہ تشدد کی حقیقت صرف ایک مثال سے واضح ہوجاتی ہےـ ابھی مئی کے اخیر میں افغان پارلیمینٹ میں کابل انتظامیہ کی وزارتِ دفاع نے ایک رپورٹ پیش کی ـ جس میں بتایا گیا تھا کہ "طالبان نے اپنی کارروائیوں میں سات فیصد اضافہ کیا ہےـ جبکہ اس کے مدمقابل کابل انتظامیہ نے اپنی کارروائیوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہےـ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ صرف ایک ہفتہ کے دوران کابل انتظامیہ نے ڈیڑھ سو سے زائد کارروائیاں کی ہے جن میں پندرہ سو سے زائد طالبان مارے گئے ہیں ـ”۔
اب قطع نظر اس بات کے کہ کابل انتظامیہ کی کارروائیوں میں کتنے طالبان مارے گئے ہیں اور کتنے عوام؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کابل انتظامیہ خود اپنی کارروائیوں میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کا اعتراف کررہی ہے اور ایک ہفتہ میں پندرہ سو سے زائد طالبان کے مارنے کا دعوی کررہی ہے ـ جبکہ یہ بھی اقرار کرتی ہے کہ طالبان کی کارروائیوں میں محض سات فیصد اضافہ آیا ہے تو پھر وہ کس منہ سے طالبان کو تشدد کا الزام دے رہی ہے؟ پھر وہ کس دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر امن کی بربادی طالبان کے کھاتے میں ڈال رہی ہے؟
بڑی بہترین بات کہی جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ تشدد میں شدت کیوں لارہے ہو؟ تو جناب مجاہد صاحب نے کہا کہ کابل انتظامیہ نے صرف ایک دن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ایک دن میں ہم نے ڈیڑھ سو حملے کئے ہیں ـ ظاہر ہے جب وہ ڈیڑھ سو حملے کرے گی تو اس پر دوسو ردعمل آئیں گےـ جہاں جہاں وہ کارروائی کرے گی اس کا دفاع کیا جائے گاـ جدھر وہ قوت کو بروئے کار لائے گی تو امارتِ اسلامیہ یوں ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھے گی ـ بلکہ اپنی قوم اور عوام کا بھرپور دفاع کرے گی جس کو کابل انتظامیہ تشدد کا نام دے رہی ہےـ
کابل انتظامیہ جس مکر وفریب سے کام لے رہی ہے اور جس تواتر سے جھوٹ بول رہی ہے اس کا اندازہ صرف اس ایک رپورٹ سے لگالیجئے جو جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے اپنے ٹویٹر پر نشر کی تھی ـ جس میں انتہائی مصدقہ ذرائع اور عینی شاہدین کے حوالہ سے بتایا گیا تھا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں صرف اکیس دنوں کے اندر کابل انتظامیہ نے ملک کے طول وعرض میں سو سے زائد شہریوں کو شہید کیا ہےـ یہ رپورٹ جو ہانچ رمضان سے لے کر چھبیس رمضان تک کے واقعات پر مشتمل تھی اپنے اندر ان تمام واقعات کی منظر کشی کررہی تھی جن میں کابل انتظامیہ نے مختلف شہروں میں چھاپہ مار کارروائیاں،بمباری اور گولہ باری کی تھی ـ جس کے نتیجہ میں بچے اور خواتین بھی بڑی تعداد میں اس درندگی کے شکار بنے تھے اور اس ظلم ووحشت کے نتیجہ میں شہید ہوگئے تھےـ
کابل انتظامیہ کی شروع سے یہ مہم رہی ہے کہ کسی طرح حقیقت کو دبائے رکھے ـ چاہے اس کے لئے جھوٹ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے؟ چاہے اس کے لئے بیرونی آقاؤوں کے پیروں پڑنا نہ پڑے؟ چاہے اس کے لئے قوم کی امنگوں کا قتل نہ کرنا پڑے؟ کیونکہ حقیقت سامنے آنے پر اس کے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتاـ کابل انتظامیہ کا قیام ہی جھوٹ،دھوکہ اور مکر وفریب پر ہےـ اس لئے وہ اس تسلسل کو جاری رکھنا چاہتی ہےـ مگر اب وقت آگیا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان ہو اور حقیقت کھل کر سامنے آجائےـ تب ہی تو خود ان ہی کی طرف سے ایسے متضاد بیانات آتے ہیں جو ان کے دعووں کو جھٹلانے کے کئے کافی ہوا کرتے ہیں ـ جس کی تازہ مثال یہی رپورٹ ہے جس میں کابل انتظامیہ کی پرتشدد کارروائیوں کا ذکر موجود ہےـ کابل انتظامیہ کی وزارتِ دفاع کی یہ رپورٹ طالبان پر تشدد کے الزام کی قلعی کھول دیتی ہےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے