کابل انتطامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے منگل کے روز اعلان کیا کہ افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی رعایت کی غرض سے قومی کلینڈر میں ایک دن ہندو اور سکھ برادری کے نام کیا جائے گا، اسی طرح علوم اکیڈمی میں مذہبی اقلیتوں کے تحقیقاتی شعبے کا افتتاح کیا جائے گا۔
اشرف غنی مذہبی اقلیت کے متعلق بیان بازی اور نمائشی اقدامات ایسے وقت میں کررہا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں مذہبی اقلیت کو سب سے زیادہ دھچکہ اشرف غنی کے دور اقتدار میں لگا ہے۔ مذہبی اقلیت کو اسلامی نظاام میں اہل الذمہ کے عنوان سے مکمل حقوق حاصل ہے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے، جارحیت سے قبل مذہبی اقلیت کو افغانستان میں امن و سکون کی زندگی میسر تھی۔ مگر جارحیت کے حالیہ 20 سالوں میں نہ صرف ان کی جائیدادیں، دکانیں اور گھر غصب ہوئے، بلکہ انہیں منظم پر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک سروے کے مطابق امارت اسلامیہ کے دوراقتدار کے دوران افغانستان میں 15 ہزار سکھ اور ہندو موجود تھے، چونکہ یہ عدد اپنی حالت پر باقی رہی۔ مگر امریکی جارحیت کے بعد حامد کرزئی کے 13 سالہ دور اقتدار میں سکھ اور ہندی برادری کی اکثریت کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ،یہاں تک اشرف غنی کے دوراقتدار تک صرف دو ہزار افراد ملک میں باقی رہ گئے تھے۔ لیکن اشرف غنی کی حکومت میں ان دو ہزار افراد کا منظم قتل عام کیا گیا یا انہیں ملک چھوڑ پر مجبور کیا گیا، حتی کہ اب تک صرف چند درجن سکھ اور ہندو افغانستان میں باقی رہ گئے۔
درج بالا تعداد سے ثابت ہورہا ہے کہ استعمار کی جانب سے افغانستان پر مسلط کردہ کرپٹ انتظامیہ نے نہ صرف ہمارے مؤمن عوام پر ظلم ڈھایا ہے، بلکہ افغانستان کے غیرمسلم باشندوں کا بھی اس طرح قلع قمع کیا ہے،جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اسلام کے عالی احکام کا پابند رہتے ہوئے امارت اسلامیہ اہل الذمہ کے حقوق کی رعایت کو اپنا دینی فریضہ اور اہم ذمہ داریوں میں سے سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے امارت اسلامیہ کے ماتحت علاقوں میں مذہبی اقلیت سے وابستہ افراد عزت اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔
امارت اسلامیہ اس لیے اسلامی نظام کے قیام اور قرآنی قانون کے نفاذ پر اصرار کررہی ہے کہ اسلامی نظام میں سب کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے ۔ کوئی بھی کسی کے جان، مال اور وقار پر حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے بھی ایسی پرسکون زندگی کے شرائط مہیا کرتا ہے، جس کا دنیا کے کسی اور قانون میں مثال نہیں ملتی ۔
کٹھ پتلی انتظامیہ کے بیانات اور نمائشی اقدامات پرہماری قوم کو دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہیے،بلکہ اس کے عمل کو دیکھنا چاہیے۔ جیسا کہ اقلیتی حقوق کے بارے میں اشرف غنی کی باتوں اور عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ویسا ہی ان کا ہر دعوہ بےبنیاد اور صرف عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ افغانستان کے مذہبی اقلیت کو اس کی ضرورت نہیں ہے،کہ قومی کلینڈر میں ایک دن اس کے نام کیا جائے،انہیں اپنے جان کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ اینٹلی جنس ایجنسی کے پراسرار حملوں میں قتل نہ ہوجائے۔ انہیں اپنے املاک اور عبادت خانوں کی حفاظت کی ضرورت ہے،جنہیں اشرف غنی کے مشیر اور اراکین پارلمان غصب نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے