تحریر:سیدعبدالرزاق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحہ ارتحال پر جب ہرسو فتنے اٹھے اور ہر طرف اسلام اور نو خیز اسلامی نظام خطرے کی زد میں آگیاـ اغیار کے ساتھ اپنوں کو بھی بغاوت اور سرکشی کی سوجھی ـ کل تک پکے مسلمان آج یا تو اسلام سے روگردانی کرنے لگے یا پھر اسلامی احکام کو ایک خاص زمانہ تک محدود کرکے ان سے انحراف اور انکار پر اتر آئے ـ جس سے مسلمانوں میں ہلچل پیدا ہوگئی ـ خدشہ یہ ظاہر ہونے لگا کہ خاکم بدہن اسلام ہی زمین دوز نہ ہوجائےـ تو اللہ رب العزت نے اپنے کئے گئے وعدے کے مطابق اسلام کو وہ عظیم انسان عطا فرمایا جس کی جد وجہد اور اسلام کے لئے انمٹ خدمات بطور مثل مشہور ہوگئیں ـ چنانچہ آج بھی عرب کہتے ہیں جب کوئی مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے کہ”ردة ولاأبابكر لها” یعنی مصیبت تو سر پر آگئی ہے مگر اسے رفع دفع کرنے لئے ابوبکر جیسا شاہکار کوئی نہیں ہےـ
جس وعدے کے بل بوتے پر رب العزت نے اسلام کو ابوبکر رضی اللہ عنہ عطا فرمایا تھا وہ قرآن کے الفاظ میں کچھ یوں مذکور ہے”والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا” جس کا آسان اور سادہ مطلب یہ ہے کہ دین متین کے لئے اگر کوئی قربانی دے گا اور جدوجہد کرے گا تو اسے وہاں وہاں راستے کشادہ ملیں گے جہاں جہاں اسے کوئی تصور نہیں ہوگاـ یہی تو وجہ تھی کہ اسلام کی سربلندی اور بقا کے لئے بذاتِ خود رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سرفروش ساتھیوں نے جب بیش بہا قربانیاں پیش کیں اور جان ومال کے نذرانے پیش کئے تو سختی اور مایوسی کے وقت اس دینِ متین کو قدرتِ خداوندی کا یہ عظیم الشان تحفہ ملا اور دین اپنی اصلی حالت پر نہ صرف برقرار رہا بلکہ عالمگیر بننے کی راہیں اسے میسر آگئیں ـ
قدرتِ خداوندی کا یہ وعدہ تاریخ کے دریچوں میں ہر منزل پر سامنے آتا ہے مگر جس طرح سے ہمیں یہ دکھایا گیا وہ اپنی مثال آپ ہےـ ایک تو شروع سے امارتِ اسلامیہ کی جد وجہد اور حق وسچ کی سربلندی کے لئے جہاد بذاتِ خود ایسا معمہ ہے جو ایمانی نور سے محروم اسکے سمجھنے سے ہمہ وقت قاصررہتا ہےـ پھر اس جہاد کے بارے میں لوگوں کا یہ تصور تھا کہ اس کے پیچھے دراصل ایک ہی شخصیت ہے اسے اگر انہیں بیچ سے ہٹادیا جائے تو یہ قافلہ رک جائے گاـ اس شخصیت سے میرِ کارواں ثالث عمر امیرالمؤمنین ملامحمدعمر رحمہ اللہ مراد ہوا کرتے تھےـ ان کی قیادت اور بے مثال رہبری کو بجا طور پر یہ سجتا بھی تھا کہ کاروان کی پرواز انہیں کی مرہونِ منت ہےـ ان کے جانے سے یہ پرواز رک جائے گی ـ چنانچہ جس دن اس عظیم رجل آفرین کی وفات کا اعلان ہوا اس دن سے گویا ایک قیامت ٹوٹ گئی ـ سمجھا یہ جارہا تھا کہ اب تو خیر سے اس جد وجہد کا جنازہ نکلنے جارہا ہےـ عالمِ کفر میں خوشیوں کا سماں بندھ گیاـ ان کی سازشیں اور حرکتیں تیز تر ہوگئیں ـ پھر دجالی مشینری نئے سرے سے اور نئے جذبے سے متحرک ہوگئی ـ دوسری طرف اپنوں کی سادگی کہئے یا کچھ اور وہ بھی نمایاں ہوگئی ـ حالات نے یکدم ایسا پلٹا کھایا جس سے مایوسیوں کی گھٹائیں ہی چھائی جارہی تھیں ـ امید کی کوئی کرن کسی سمت نظر نہیں آرہی تھی ـ اس وقت اللہ پاک نے ایک دفعہ پھر اپنے وعدے کے مطابق امتِ اسلامیہ کو افتراق وانتشار اور اغیار کے رحم وکرم پر چھوڑے بغیر ایک عظیم سپوت عطاء کیاـ امیرالمؤمنین ملااخترمحمد منصور شہید کی شکل میں درحقیقت وہ فرشتہ سامنے آیا جسے اس مقدس تحریک،اس عظیم صف اور اعلائے کلمة اللہ کے لیے لڑنے والے ان سرفروش مجاہدین کی از سرنو تشکیل اور تنظیم پر مامور کیا گیا تھا اور انہیں عالمگیر شناخت دینے اور عالمِ کفر کی دھجیاں بکھیرنے کی مہم پر بھیجا گیا تھاـ
دنیا تو ملامحمدعمر کے جانے پر خوشیاں منارہی تھی اور امارتِ اسلامیہ کی اپنے آپ مرنے کی تمنا کررہی تھی مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ یہاں تو ابھی کتاب کھلی ہےـ طوفان نے کروٹ بدلا ہے ختم نہیں ہوا ہےـ ملامحمدعمر جانے کو تو گئے ہیں مگر جو جانشین چھوڑا ہے وہ صرف تربیت یافتہ ہی نہیں بہترین شہسوار اور عمری جذبہ سے سرشاری میں بھی اعلی ہیں ـ یہ جانشین اس وقت دنیا کی خوشیوں کو مایوسیوں میں تبدیل کرگیا جب غاصب امریکی افغانستان میں یکے بعد دیگرے ایک ایک ضلع اور بالآخر مکمل صوبوں سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہوگئےـ دوسری طرف جہاں یہ غاصب فوجی مقیم تھے ان اڈوں پر اس شدت سے ضربیں پڑیں کہ ان کی چیخیں بھرپور طریقے سے دبانے کے باوجود چہارسو سنی گئیں ـ تیسری جانب غاصب امریکی فورسز کی جانب سے افتراق ڈالنے کی جو سازش شروع ہوئی تھی عمر کے اس عظیم جانشین ملااخترمحمدمنصور نے اس سازش کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی ناکارہ بنادیاـ اپنی صف کو مزید مضبوط کرکے ہر طرز سے منظم بنایاـ جہاں بھی خامی نظر آئی اسے ختم کیاـ
پھر عسکری کامیابیوں کے ساتھ سفارتی اور سیاسی محاذ کو بھی سرگرم اور فعال کردیاـ جن طالبان کی شہرت دنیا میں دہشت گرد اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے کرائی گئی تھی اور عالمی سازش کے تحت اس مقدس اور مظلوم جماعت کو جس طرح بدنام کیا گیا تھا ملااخترمحمدمنصور نے سر ہتھیلی پر رکھ کر دنیا جہان کے اسفار اور دورے کئےـ اور دنیا کو امارتِ اسلامیہ کی حقیقی تصویر دکھانے میں کامیاب ہوگئےـ سیاسی دفتر کے ذریعہ عالمی برادری پر اپنا درست اور مضبوط موقف واضح کردیاـ جانبِ مقابل کے زہریلے منصوبوں سے آگاہ رہنے کےلئے پہلی دفعہ باقاعدہ انٹیلی جنس کا شعبہ بنایا اور بروقت ان کی سازشی تھیوری کو ہردفعہ ناکامی سے دوچار کیاـ
اس کے ساتھ ہی ایک اور عظیم کارنامہ جو امیرالمؤمنین ملااخترمحمدمنصور نے سرانجام دیا وہ یہ کہ اپنی قوم کے ایک ایک فرد سے ملنے اور ان کی شکایات سننے کے لئے ہرجگہ انتظام کیاـ ملک کے چپے چپے کا بذات خود دورہ کیاـ مجاہدین کے نظم وضبط میں جہاں خوبی نظر آئی انہیں داد دی اور جہاں کمزوری محسوس کی وہاں ضروری ردوبدل کے ساتھ انتہائی حکمت وبصیرت کے پیشِ نظر ان مجاہدین کی تنظیم بھی کی اور ان کا حوصلہ بھی برقرار رکھاـ اغیار کی طرف سے یہ جو پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ امارتِ اسلامیہ کے اندر اتنے اتنے اور فلاں دھڑے دھڑے ہیں امیرالمؤمنین نے عملی طور پر یکمشت پوری امارتِ اسلامیہ دنیا کو دکھائی اور یہ تصور ہی ختم کردیا کہ ایسا سوچنا ہی غلط ہےـ
صدیقی سیرت اور اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات سے واقفیت رکھنے والا یہ سمجھنے میں دشواری محسوس نہیں کرے گا کہ امیرالمؤمنین ملااخترمحمدمنصور کو کس حد تک اس عظیم دور سے مشابہت ہے؟ اور جب تاریخ داں ذرا غور اور تقابل سے کام لے گا تو اس پر آشکارا ہوجائے گا کہ چودہ صدیوں بعد وجود پذیر ہونے والا یہ شاہکار فرد کس مضبوطی اور استقامت سے اسلام اور اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کرتا رہا جو بالآخر جان کے نذرانے مگر اسلام کی فلاح وبہبود پر جا کر مکمل ہوئی ـ
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ امارتِ اسلامیہ آج جس طرح عالمگیر اور آفاقی شکل میں موجود ہے اور ضروریاتِ زمانہ کی ہرنوع سے بہرہ ور ہےـ ہر شعبہ زندگی سے بھرپور وابستگی اور اس کی مکمل نمائندگی رکھتی ہے اس میں اہم اور بنیادی کردار امیرالمؤمنین ملااخترمحمد منصور جیسے عظیم قائد کا ہےـ
اسی وجہ سے تو وہ کفر کی آنکھوں میں خار اور دلوں میں کھٹکتے رہے تاآنکہ بالآخر ایک ان کی طرف سے ایک بزدلانہ حملے میں شہادت کی سعادت سے سرفراز ہوگئےـ
امیرالمؤمنین ملااخترمحمد منصور کو قیادت کے لئے بہت ہی کم دن ملے لیکن بایں ہمہ جو عظیم خدمات انہوں نے سرانجام دیں وہ ان کا رشتہ پھر صدیقی سیرت اور اسلام کے ایک اور عظیم مجدد عمربن عبدالعزیز سے جوڑتا ہےـ جو برسرِ اقتدار تو دوہی سال یا اس سے بھی کم عرصہ رہے لیکن اسلام کو جو فائدہ پہنچایا وہ ایسا دیرپا اور عظمتوں سے بہرہ ور ہے جو کئی کئی جماعتیں صدیوں میں نہیں پہنچاسکتیں ـ
آج جبکہ ان کی شہادت کو پانچ سال مکمل ہوریے ہیں ان کے خون سے سینچا ہوا باغ ہریالی سے لطف اندوز ہےـ ان کا لشکر پوری آب وتاب سے رو بہ ترقی ہےـ ان کا مشن اسی کروفر کے ساتھ پیش قدمی کی جانب گامزن ہےـ اور بلاشبہ یہ ان کی بے لوث قربانی اور اخلاص وعزیمت ہی کا نتیجہ ہےـ
رحمہ اللہ وتغمدہ بغفرانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے