اعتکاف ، تقویٰ وپرہیز گاری حاصل کرنے کا اہم موقع۔۔۔۔

سعود عبدالمالک

اعتکاف اللہ تعالیٰ کی قربت اور خوشنودی ، سکون قلب، راز و نیازاورمحبوب حقیقی سے سرگوشی کرنے کا ایک خاص ذریعہ ہے۔اعتکاف نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ و صحابیات کی سنت اورغار حراء کی یاد گار ہے جہاں آپ تنہائی میں اپنے خالق و مالک سے سرگوشی کرتے تھے۔ اپنے دل کی بات کھول کھول کر بیان کرتے تھے۔

اعتکاف رمضان المبارک میں تقویٰ و پرہیز گاری حاصل کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور بیبیوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو، جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں یہ اللہ کے ضابطے ہیں سو اْن (سے نکلنے) کے قریب بھی نہ جانا، اللہ اسی طرح اپنے احکام لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ پرہیز گار بن جائیں۔ (بقرہ)

بخاری شریف کی روایت ہے کہ: ’’زوجۂ رسول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کواس دنیا سے اٹھایا، پھر آپﷺ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔‘‘۔

آج ہمارے معاشرے میں مردوں میں تو کچھ حد تک اس سنت پر عمل ہو رہا ہے مگر افسوس کہ عورتیں بہت ہی کم اعتکاف کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ازواجِ مطہرات کی اقتدا کرنے والی بنائے۔ آمین۔اعتکاف کے لغوی معنیٰ کسی جگہ ٹھہرنے اور کسی مکان میں بند رہنے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں اعتکاف کا مفہو م اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اعتکاف کی نیت سے کسی جماعت والی مسجد میں ٹھہرنا ہے۔اعتکاف اکثر مذاہب فقہ میں سنت ہے اور اس پر سب کا اجماع ہے کہ واجب نہیں ہے، البتہ احناف کے نزدیک آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔

اعتکاف کا مقصداور فائدہ:۔

 اعتکاف رمضان المبارک کے فوائدو مقاصد کی تکمیل کے لئے ہے،اگر روزہ دار کو پہلے حصہ میں وہ سکون قلب، جمعیت باطنی، فکرو خیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت ، رجوع الی اللہ کی حقیقت اور اس کے درِ رحمت پر پڑ ے رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی تو اس اعتکاف کے ذریعے وہ اس کا تدارک کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں علامہ ابن قیم ؒ لکھتے ہیں:۔

اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ قلب ا? تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے اس کے ساتھ جمعیت باطنی حاصل ہو، اشتغال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتغال بالحق کی نعمت میسر آئے، اور یہ حال ہوجائے کہ تمام افکار و ترددات اور ہموم و وَ ساوس کی جگہ ا? کا ذکر و فکر، ا س کی رضا و قرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے، مخلوق سے انس کے بجائے اللہ سے انس پیدا ہواور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہوگا یہ انس اس کا زادِسفر بنے، یہ ہے اعتکاف کا مقصد جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے، (ارکانِ اربعہ/زادالمعاد)

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں: , چوں کہ مسجد میں اعتکاف جمعیت خاطر، صفائی قلب، ملائکہ سے تشبّہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ ، نیز طاعت و عبادت کا بہترین و پرسکون موقع ہے، اس لئے رسول اللہ صلی ا? علیہ وسلم نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے، اور اپنی امت کے محسنین و صالحین کے لئے اس کو سنت قرار دیا ہے ، (حجۃاللہ البالغہ )

حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ تمام نیکی کرنے والوں کے مانند جاری رہتا ہے۔اس ارشاد نبوی میں اعتکاف کے دو فائدے بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ اعتکاف کی وجہ سے آدمی بہت سے گناہوں سے بچ جاتاہے۔ دوسرے یہ کہ بہت سے نیک اعمال جن کو اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا جیسے مریض کی عیادت اور جنازہ کی شرکت وغیرہ ان تمام امور کا بغیر کئے اجر و ثواب ملتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی اعتکاف کے بہت سے فوائد ہیں جیسے :۔

 ۔1۔ اعتکاف کرنے والا اپنے اعضا اور اوقات کو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف کردیتا ہے۔ اور اپنے کو بالکل اپنے مولیٰ کے سپرد کردیتا ہے۔

 ۔2۔چوں کہ نماز سے مقصود یہی ہے کہ ہمہ تن مولیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے اس لئے گویا معتکف ہر وقت نماز میں ہے۔

۔3۔ اعتکاف کی وجہ سے دنیوی جھگڑوں اور بیکار باتوں اور فضول کاموں سے محفوظ رہتاہے۔

 ۔4۔ اعتکاف کی حالت میں ہر وقت سوتے جاگتے عبادت کا ثواب ملتا ہے اور سارا وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے۔

 ۔5۔ فرشتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ان تمام وقت عبادت میں گزرتا ہے۔ معتکف کا بھی سارا وقت عبادت میں بسر ہوتا ہے۔

۔6۔ معتکف چوں کہ خدا کے گھر (مسجد) میں رہتا ہے۔ اس لئے گویا حق تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے۔ اور مہمان کا ہر طرح اکرام و اعزاز کیا جاتاہے۔

اعتکاف کی جگہ :۔

 اعتکاف کے لئے سب سے افضل جگہ مسجدِ مکہ ( بیت اللہ) ہے۔ پھر مسجد نبوی پھر مسجد بیت المقدس پھر مسجدِجامع پھر اپنے محلہ کی مسجد۔ بہر حال مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ البتہ امام اعظم  ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ اس مسجد میں پانچوں وقت جماعت ہوتی ہو، ویران اور غیر آباد نہ ہو۔

عورت کو اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہئے اگر گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مخصوص نہ ہو تو پھر اعتکاف کے لئے کسی جگہ کو خاص کرلے۔(ارکانِ اسلام)

اعتکاف کے شرائط:۔

 اعتکاف کے لئے( ۱)عاقل وبالغ ہونا(۲) حدثِ اکبر اور (عورت ہوتو) حیض و نفاس سے پا ک و صاف ہونا (۳)نیت کرنا( ۴)مسجد میں ہونا، شرط ہے۔

مکروہات ِ اعتکاف:۔

 بالکل خاموشی اختیار کرنا۔ اور اس کو عبادت سمجھنا۔ سامان مسجد میں لاکر بیچنا یا خریدنا۔ لڑائی جھگڑا یا بیہودہ باتیں کرنا۔

مفسداتِ اعتکاف:۔

(۱)بلاعذر قصداً یا سہواً مسجد سے باہر نکلنا۔

۔(۲) حالتِ اعتکاف میں صحبت کرنا یا صحبت کے لوازمات اختیار کرنا۔

۔ (۳)کسی عذر سے باہر نکل کر ضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔

 ۔(۴) بیماری یا خوف کی وجہ سے مسجد سے نکلنا۔ ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہوجاتاہے۔

اگر اعتکاف واجب ہے تو اس کی قضا واجب ہے اور نفل اعتکاف کی قضا واجب نہیں ہے۔

وہ امور جو معتکف کے لئے جائز ہیں:۔

 پیشاب یا پاخانے کے لئے نکلنا۔ غسل فرض کے لئے نکلنا۔ نمازِ جمعہ کے لئے زوال کے وقت یا اتنی دیر پہلے نکلنا کہ جامع مسجد پہنچ کر خطبہ سے پہلے چار سنت پڑھ سکے۔ مؤذن کا اذان کہنے کے لئے اذان کی جگہ پر خارج مسجد جانا۔ مسجد میں کھانا،پینا، سونا اورضرورت کی چیزوں کی خرید و فروخت بشرطیکہ وہ چیز مسجد میں نہ ہو۔ نکاح کرنا۔یہ سب چیزیں معتکف کے لئے جائز ہیں۔

اعتکاف کا حاصل رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہنا،لیلۃ القدر کی تلاش اور گناہو ں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن جدو جہدکرناہے۔

رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی تقریباً گزرنے کے قریب ہے۔ اب جو وقت بچاہے اسے ہمیں قدر کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم اعتکاف نہیں کرسکتے تو کم سے کم اس آخری عشرہ میں زیادہ سے زیادہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجائیں اور اپنے گناہوں کی بخشش کا پروانہ حاصل کرلیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے