اگرچہ امت مسلمہ کی تاریخ فنون حرب اور جنگی کارناموں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن مغربی مورخین کی نظر اس پر کبھی نہیں پڑی۔ مورخین کو نپولین بوناپارٹ، جولیس قیصر اور چنگیز خان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ یہ جرنیل بھی اپنی جگہ فن حرب کے ماہر تھے اور انہوں نے بڑے بڑے دشمنوں کو شکست دی تھی لیکن تاریخ اسلام کا ایک ایسا جرنیل بھی ہے جس کا تذکرہ دنیا کی جنگی تاریخ میں لازمی ہونا چاہیے۔اس نڈر اور ناقابل شکست جرنیل کا نام ”خالد بن ولید“ ہے۔
خالدؓ بن ولید کی بے مثال کامیابیوں کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ”سیف اللہ“ یعنی اللہ کی تلوار کے لقب سے نوازا تھا۔ خالدؓ بن ولید 6ویں صدی کے آخر میں قریش کے قبیلے بنی مخزم میں پیدا ہوئے ۔اس قبیلے کے لوگ جنگجو تھے اورجنگی مقاصد کے لیے گھوڑے پالتے تھے۔ابتدائی عمر سے ہی خالدؓ نے فنون حرب، گھڑ سواری، تلوار و نیزہ بازی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے بہت جلد سیکھ لیا تھا کہ کس طرح اونٹوں کے ذریعے ریگستان کو جلد عبور کیا جا سکتا ہے اور کس طرح گھوڑوں کے ذریعے دشمن پر حملہ آور ہوا جا سکتا ہے۔خالدؓ بن ولید کے والدنے اپنے بیٹے کو حربی فنون میں ماہر بنانے کے لیے اس قدر محنت کہ نہ صرف ان کو تلوار اور نیزہ بازی سکھائی بلکہ انہیں زہر جیسے مہلک خطرے سے نمٹنے کیلئے بھی تیار کیا تاکہ وہ دشمن کی کسی بھی چال کا نشانہ نہ بن سکیں۔
12ویں صدی کے ایک مورخ ابن اسکر نے لکھا ہے کہ خالدؓ بن ولید نے ایک مرتبہ ایک جنگ کے دوران دشمن کو زیر کرنے کے لئے ان کے سامنے زہر پی لیا تھا، تا کہ دشمن لڑنے سے پہلے ہی ان کی د ہشت کے ہاتھوں شکست کھا جائے لیکن اللہ کے حکم سے خالد بن ولید کو کچھ بھی نہ ہوا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل جنگ احد میں مسلمانوں کا شدید جانی و مالی نقصان بھی خالدؓ بن ولید کی جنگی حکمت عملی کا ثبوت تھا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد وہ نہ صرف مسلمانوں کے کمانڈر تھے بلکہ انہوں نے حضورﷺ کے حلقہ قرابت داروں میں بھی جگہ بنا لی تھی۔اصل میں قبول اسلام کے بعد ہی خالدؓ بن ولید کا جنگی کیریئر شروع ہوا تھا۔ جنگ موتہ میں جب رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ تینوں کمانڈر یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تو ایسے کڑے وقت میں خالدؓ بن ولید نے فوج کی کمان سنبھالی، 3000شکست خوردہ سپاہیوں کو ہمت دلائی اوراپنی بہترین جنگی حکمت عملی سے دشمن کے 20ہزار سے زائد سپاہیوں کے لشکر کو شکست فاش دی تھی۔خالد ؓ بن ولید کی کمان میں مسلمانوں نے اس قدر جنگوں میں فتح حاصل کی کہ مسلمانوں میں یہ تاثر پھیل گیا کہ ہماری فتوحات صرف خالدؓ بن ولید کی وجہ سے ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو ہم شاید جنگوں میں ہار جائیں، اس تاثر کو زائل کرنے کے لیےحضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کچھ عرصے کے لیے خالدؓ بن ولید کو کمانڈر کے عہدے سے معزول کر دیا تھا۔
خالدؓ بن ولید زندگی بھر شہادت کی خواہش دل میں لیے جنگوں میں لڑتے رہے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تیر، تلوار، نیزے یا کسی دوسرے ہتھیار کا زخم موجود نہ ہو لیکن انہیں شہادت نہ ملی۔ علماءکرام اس کی وجہ سے بتاتے ہیں کہ انہیں چونکہ سیف اللہ کا لقب دیا گیا تھا اس لیے انہیں میدان جنگ میں شہادت نصیب نہیں ہو سکی کیونکہ کسی کو مجال نہیں کہ اللہ کی تلوار کوشکست دے سکے۔زندگی بھر خالدؓ بن ولید کے ہاتھ میں تلوار کا دستہ رہا اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے