رمضان کی برکات میں سے ایک بڑی برکت ’’ اعتکاف ‘‘ والی عبادت ہے، جواپنے امتیازات وخصائص میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔

یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے دربار کی مخصوص حاضری ہے ، جس کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی وفاداری اور مخلصانہ بندگی کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دنوں کے لیے سب دنیاوی تعلقات سے کٹ کر بلکہ تمام دنیاوی ٹھکانوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے گھر مسجد میں قیام پذیر ہوجاتا ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف کیا جاتا ہے، جس میں سراسر خیر ہی خیر اور بھلائی ہی بھلائی ہے، اوراس کا تقاضا یہ ہے کہ اس عبادت میں حتیٰ الامکان سستی نہ کی جائے، اور اسے خوش دلی سے اداء کیاجائے۔ اہل علم نے بڑی تفصیل کے ساتھ اعتکاف کی خوبیوں اور اس میں موجود فوائد کو بیان کیا ہے۔ جن میں بعض درج ذیل ہیں:

(۱) اس میں انسان گویا اپنے قلب کو دنیاوی امور سے فارغ کردیتا ہے، اعتکاف کرنے والا قرب الٰہی کی طلب میں اپنے آپ کو بالکل پوری طرح سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگادیتا ہے اور دنیا کے مشاغل سے جو کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور کردیتے ہیں اپنے آپ کوالگ کردیتا ہے، کیونکہ یہ بالکل فارغ ہو کر پوری طرح سے عبادت کی طرف متوجہ ہونے کا شغل اور مصروفیت ہے۔ اسی طرح یہ معتکف اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد یتا ہے کیونکہ وہ اپنے تمام امور کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات و عنایات پر اعتماد کرتا ہے اور اس کے دروازے پر ٹھہرتا ہے اور اس کے گھر میں اس کی عبادت اور تقرب کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے تاکہ اس کے فضل و کرم اور احسان و رحمت کے ساتھ اس کی طرف التجااور اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہوئے اُس کا تقرب حاصل کرے۔

 (۲) اعتکاف کرنے والے کے تمام تراوقات نماز میں شمار ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ یا تو حقیقتاً نماز میں ہوتا ہے یا حکماً ہو تا ہے یعنی نماز کے اِنتظار میں ہوتا ہے کیونکہ اعتکاف کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کے انتظار میں رہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :المنتظر للصلوۃ کانہ فی الصلوۃ (نماز کا انتظار کرنے ولا ایسا ہے گویا کہ وہ نماز میں ہے) یہی وجہ ہے کہ اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے۔

(۳)اعتکاف کرنے والا اپنے آپ کو ان فرشتوں کے مشابہ بناتا ہے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لایعصون اللہ ماامرھم ویفعلون مایؤمرون( سورۃ التحریم) یعنی جس چیز کا اللہ نے ان کو حکم دیا ہے وہ لوگ اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن کاموں کا ان کو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔‘‘ اور جیساکہ سورہ حم السجدہ میں فرمایا کہ وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں( تسبیح پڑھتے ہیں) اور تھکتے نہیں…

اس طرح اعتکاف کرنے والا ان فرشتوں کے ساتھ مشابہت پیدا کرتا ہے کیونکہ نیکی طلب کرنے اور عبادات میں احکام خداوندی بجالانے کے لئے کھا نا پینا وغیرہ بقدرامکان ترک کرتاہے اور تمام دنیاوی تعلقات بھی حتی الامکان منقطع کر کے ایک اللہ تعالیٰ کا ہو کر رِہ جاتا ہے۔

 (۴)ایک خوبی یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے کیوں کہ معتکف کے حق میں روزہ شرط ہے اور روزہ دار اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔

 (۵) اعتکاف میں بیٹھنے والا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ وہ مضبوط قلعہ میں محفوظ ہے، پس اس کے دشمن شیطان اور دنیا اپنے مکر و فریب اور غلبہ کے ساتھ اس تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شہنشاہی قوت اور غلبہ اور امداد و نصرت اس معتکف کے ساتھ ہوتی ہے۔

(۶)معتکف ،اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر کو لازم پکڑتا ہے پس وہ ایسا ہے جیسا کہ کسی بڑی عظمت والے کی طرف اس کی حاجت ہے اور وہ اس کے دروازے کو لازم پکڑتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کی حاجت کو پورا کردے پس اعتکاف کرنے والا بھی اپنے رب کے گھر کو لازم پکڑتا ہے تاکہ وہ اس کو بخش دے۔

(۷)اگر اعتکاف اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے کیا جائے تو یہ اشرف الاعمال میں سے ہے۔ اس لئے کہ وہ نماز کی انتظار میں رہتا ہے اور گویا کہ وہ نماز میں ہے اور یہ سب سے الگ ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کی حالت ہے۔

 (۸)اعتکاف سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے گھر کو لازم پکڑتا ہے اور دنیا سے منہ پھر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تاکہ اس کی رحمت طلب کرے اس سے مغفرت چاہے۔

 معروف بزرگ حضرت عطاء خراسانی نے کہا ہے کہ اعتکاف کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے بخش نہیں دے گا اسی حالت میں رہوں گا یعنی جیسا کہ کوئی شخص بادشاہ یا وزیر اعظم یا امام اعظم کے دروازے پر اپنی کسی حاجت و ضرورت کے لئے جس کو وہ عادتاً پورا کر سکتا ہے ٹھہرارہے۔ پس اعتکاف کرنے والا اگرچہ قول کی زبان سے کچھ نہیں کہتا لیکن زبانِ حال سے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے مولیٰ کے دروازے پر ہمیشہ کھڑا رہوں گا اور اپنے تمام مقاصد حاصل ہونے ،مصیبتوں کے دور ہونے اور اس کا قرب حاصل ہونے کا سوال کرتا رہوں گا اور اس کے لئے اپنے عزیز بھائیوں بلکہ اصلی قرابت داروں سے الگ رہوں گا یہانتک کہ وہ میرے گناہوں کو بخش دے جوکہ اللہ تعالیٰ سے میری دوری اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب ہیں، پھر وہ اپنے احسانات مجھ پر جاری فرمائے جو اس کی شانِ کریمی کے شایاں ہیں اور مجھ کو ایسی عزت بخشے جو وہ اپنے محبوب اور مخصوص بندوں کوعنایت فرماتے ہیں۔

(۹)چونکہ اعتکاف ایک مسنون عمل ہے، فرض نہیں ہے کہ جس کی پابندی سب پر لازم ہو، ایسے میں جو بندہ ہمت کرکے اعتکاف کرتا ہے تو وہ گویا عزیمت والی راہ اختیار کرتا ہے اور اصحاب عزیمت لوگوں کا خاص مقام ہوا کرتا ہے۔

(۱۰)چونکہ اعتکاف مسنون علی الکفایۃ ہے اس لیے جو بندہ اعتکاف بیٹھتا ہے وہ نہ صرف یہ خود اپنی ذمہ داری اداء کرتا ہے بلکہ اپنے محلے یا اپنے شہر کے تمام مسلمانوں کی طرف سے اس ذمہ داری کو اداء کرنے والا ہوتا ہے اور یہ بڑی فضیلت ہے کہ ایک ذمہ داری کی بجائے ڈھیر سارے مسلمانوں کی طرف سے ان کی ذمہ داری اداء کی جائے اور یہی بات اس معتکف کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی محبوب بناتی ہے اور اہل ایمان کے ہاں بھی کہ اس نے ان کی ذمہ داری کو بھی اداء کیا ہے۔

اعتکاف کے شرعی مسائل تو اہل علم سے وقتا فوقتا پوچھے جا سکتے ہیں، یہاں موقع کی مناسبت سے اعتکاف کے اوپر درج کردہ فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ آداب بھی جان لینا مناسب ہے۔ اعتکاف کے آداب و مستحبات یہ ہیں:

(۱) اعتکاف کے دوران نیک باتوں کے سوا اور کوئی کلام نہ کرے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

و قل لعبادی یقولواالتی ھی احسن( سورہ بنی اسرائیل)

(اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ و ہ اچھی بات کہیں)

یہ حکم عام ہے۔ جس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ مسجد کے باہر بھی نیک باتوں کے سوا اور کلام نہ کرے پس مسجد میں یہ حکم بدرجۂ اولیٰ لازم ہے اور نیک باتوں کے سوا اور کلام کرنا اعتکاف نہ کرنے والے کے لئے بھی مکروہ ہے پس معتکف کے لئے بدرجہ اولیٰ مکروہ ہے اور بظاہر نیک باتوں سے مراد یہاں وہ باتیں ہیں جن میں گناہ نہ ہو پس مباح کلام بھی اس میں شامل ہے، اور ظاہر یہ ہے کہ ضرورت کے وقت مباح کلام کرنا نیک کلا م میں شامل ہے، بلاضرورت ہو تو نیک کام میں شامل نہیں۔ پس مسجد میں بلاضرورت مباح کلام کرنابھی مکروہ ہے اور نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے…

 فتح القدیر میں اس کی صراحت کی گئی ہے ۔

الغرض اعتکاف کے دوران گناہ کی باتیں تو بالکل ہی حرام ہیں، جبکہ مباح کلام بھی حتی الامکان کم سے کم ہو، ضرورت کی باتوں کے علاوہ محض گپ شپ سے بہر حال اجتناب ہی کرنا چاہئے۔

(۲) اعتکاف میں قرآن پاک کی تلاوت اور حدیث اور علم پڑھنا اور پڑھانا اوردرس دینا اور نبی کریمﷺ کی سیرت یعنی آپ کے غزوات اور آپ کے حالات کا پڑھنا اور ان کا ذکر کرنا اور انبیاء علیہم السلام کے حالات وقصص اور نیک لوگوں کے حالات و حکایات کا ذکر کرنا اور دینی امور کے لکھنے کا شغل اختیار کرے یعنی اکثر اوقات ان امور میں مشغول رہے۔

(۳)اعتکاف کے دوران ہر روز ہوسکے تو بہتر ہے کہ صلوۃ التسبیح اداء کرلیاکرے

(۴)اعتکاف کے واسطے افضل مسجد مثلاً مسجد الحرام یا مسجد نبوی کا انتخاب کرے ورنہ بہر حال کوشش کرکے جامع مسجد کو اختیار کرنا چاہئے۔

( ۵)جو شخص رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کا ارادہ کرے اس کو چاہئے کہ اکیسویں شب کو یعنی بیس رمضان کا آفتاب غروب ہونے سے قدرے پہلے اس مسجد میں داخل ہوجائے جس میں اس کو اعتکاف کرنا ہے اور رمضان المبارک کے آخری دن کا آفتاب غروب ہونے کے بعد مسجد سے باہر آئے ۔

(۶)اعتکاف کے لیے جاتے ہوئے اور اعتکاف سے واپسی پر سادگی اور اخلاص کو خاص طورسے مدنظر رکھے، کوئی بھی ایسی اجتماعی شکل و صورت نہ بنائے جائے جس سے دکھاوا اور ریاء کاری کا اظہار ہوتا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے