تحریر: مولوی عبدالہادی مجاہد
‏    اسلام میں مذہب اور سیاست میں علیحدگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
‏    ”دینِ اسلام” مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام… اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لے آیا ‏ہے۔ پیغمبر ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ‏ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو حضور ﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین ‏مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنماء بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔
‏    تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے… مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے ‏برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی ‏کے نظریہ کومغربی اصطلاح میں سیکولرازم بھی کہا جاتا ہے، جو کلیسا کے منحرف دین کے خلاف یورپ کی الحادی بغاوت کا نتیجہ ہے۔ اس نظریے نے ایک جانب اگر یورپیوں کو ‏کلیسا کے استبداد کے مقابلے کے لیے کھڑا کیا تو دوسری جانب یورپی استعماروں نے اسلامی دنیا میں اپنے نظریے کی اشاعت اور پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو بھی اسلامی نظام کی ‏حاکمیت سے محروم کر دیا۔
مذہب اور سیاست کی علیحدگی سے اسلامی دنیا کو نقصانات:۔
‏    خلافتِ عثمانیہ کے آواخر میں سلطان عبدالحمید خان اور کچھ دیگر افراد کے استثناء کے ساتھ جب نظام اور عسکری قیادت کے معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے، جو ‏سیکولر مغربی نظریات سے متأثر تھے تو اسلامی دنیا میں اُس یورپی نظریے کی اشاعت کے لیے راہ ہم وار ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں شریعت کی حاکمیت اور خلافت کا نظام ختم ہو گیا۔ ‏عالمِ اسلام کو یورپی ممالک نے اپنی جارحیت کا شکار بنایا۔ آخر میں پوری اسلامی دنیا میں ایسا مغربی نظام وجود میں آیا، جو شریعت کی حاکمیت کی راہ میں رکاوٹ اور مذہب و سیاست کی ‏علیحدگی کا باعث تھا۔
‏    اسلامی دنیا پر مسلط مغربی نظاموں نے نہ صرف یہ کہ شریعت کے عملی نفاذ کا راستہ روکا، بلکہ مسلمان عوام پر کمیونزم، فاشسٹ لبرل ازم، امریکی پراگمیٹزم کی معاصر یورپی ‏منافقت میکاؤلی ازم کے تمام جرائم آزمائے گئے۔ اسلامی ممالک کا استقلال ختم ہوکر رہ گیا۔ ان ممالک کو سیاسی، عسکری، اقتصادی، فکری؎، ثقافتی اور اجتماعی لحاظ سے روس، امریکا ‏اور یورپ کا غلام بنا دیا گیا۔
‏    افغانستان میں سیکولر ازم کون لایا؟
‏    دین اور سیاست کی علیحدگی کے فتنے سے افغانستان بھی محفوظ نہیں رہا۔ پہلی بار اِس بیرونی نظام اورفکر کی تھیوری ”محمود طرزی” لایا تھا، جو خود سیکولر کمال ازم اور یورپی ‏نظریات سے شدید متأثر تھا۔ بعد ازاں امان اللہ خان نے طاقت، جیل، فکری مرعوبیت اوراستبدادی حکومت کے زور پر اس نظریے کے لیے عملی اقدامات شروع کیے۔ مغربی ‏لوگ محمود طرزی کو افغانستان میں سیکولرازم کا باپ مانتے ہیں۔ یہ شجرۂ خبیثہ آہستہ آہستہ افغانستان میں بھی جڑ پکڑنے لگا۔ جس کا نتیجہ… امان اللہ خان کے ان فسادات میں… ‏جسے اصلاحات کا نام دیا جاتا ہے، ظاہر شاہ کے گھٹیا نظام میں… داؤد خان کی جمہوریت میں… کمیونسٹوں کے انقلاب ثور اور حالیہ امریکی کٹھ پتلی جمہوریتوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ‏افغانستان میں دین اور سیاست کی علیحدگی کے نظریے سے شریعت اسلامیہ سے دور ایسے حالات، نظام اور قوانین سامنے آئے… جنہوں نے ایک بارپھر افغانستان میں امان اللہ ‏خان کی شکل میں ترکی کے مصطفی کمال کو دوسرا جنم بخشا ہے۔ دوسری مرتبہ اسی نظریے نے یہ ملک روسیوں کی گود میں ڈال دیا اور اب یہ تیسرا مرحلہ ہے، جس نے یہ ملک امریکا ‏اور اس کے اتحادیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ افغانوں نے مغرب زدہ سیکولر حکمرانوں کے جرائم کا کفارہ ہر بار ہزاروں لاکھوں شہداء کی قربانی سے ادا کیا ہے۔ وہ اب تک اپنا ‏معاشرہ بے دینی کے جرائم اور منفی اثرات سے پاک کرنے میں مصروف ہیں۔
سیکولر زدہ مسلمان:۔
‏    عالمِ اسلام میں سیکولر حکمرانوں کی جانب سے بے دینی کے پھیلنے سے کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے، جن کے صرف نام اسلامی ہیں۔ ان کی بقیہ زندگی میں کہیں ‏اسلام نظر نہیں آتا۔ ان کی زندگی کے تمام معاملات دینی تعلیمات سے یکسر خالی ہیں۔ وہ سیکولرازم، کمیونزم، لبرل ازم اور دیگر خود تراشیدہ قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ یہ سیکولر ‏لوگ اسلام کے بجائے اپنی وفاداری مغرب کے ساتھ وابستہ رکھتے ہیں۔ انہیں کی صف میں کھڑے رہتے ہیں۔ گذشتہ ایک صدی میں عالمِ اسلام کے بہت سے ممالک جیسے برصغیر ‏ہند، ترکی، عرب دنیا اور افغانستان کی بہت سی اسلامی شخصیات، اسلامی اور سیاسی جماعتوں نے سیکولرازم کے خاتمے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے نظریات پیش کیے ہیں اور ‏باقاعدہ کتابیں لکھیں۔ اسلامی سیاست اور نظام کے دعوے اور نعرے اٹھائے، مگر جب عملی طورپر سیاست اور نظام میں داخل ہوئے یا حکومت کا حصہ بنے تو پھر انہیں لوگوں نے ‏سیکولر ازم کا ساتھ دیا۔ عملی طورپر ان کی سیاست اور حکومت سیکولرازم کے اصولوں پر کاربند رہی۔ اپنے سیاسی اور فکری انحرافات کی تطہیر کے لیے اسلامی احکام میں تحریف اور ‏تأویل کی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ لوگ بہت سے مقامات پر مجاہدین کے خلاف مغربی صلیبی عسکری اتحاد کا حصہ ہیں۔
ملا محمد عمر مجاہد اور سیکولر نظریات کے خلاف جنگ:۔
‏    مذکورہ بالا صورت حال کے برخلاف ملا محمد عمر مجاہد ایسے واحد مسلمان رہنماء تھے، جو منبر اور محراب سے اٹھے اور اپنا نظام بھی خالص اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا۔ انہوں ‏نے سیاست کو پھر سے اسلامی بنایا۔ انہوں نے سیاست اور نظام میں سیکولرازم یا دیگر نظریات کی پیوندکاری تسلیم نہیں کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ مسلمان اپنی نجی زندگی میں بھی ‏مسلمان ہے اور کفریہ نظریات اور اصولوں سے دور رہ کر اپنا نظام اسلامی بنا سکتا ہے ۔
‏    ملا محمد عمر مجاہد ایک سچے مسلمان رہنماء کی حیثیت سے نہ تو کافروں کی فوجوں سے مرعوب ہوئے، نہ ورلڈ آرڈر سے مرعوب ہوئے، نہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ‏قوانین کی بندگی تسلیم کی۔ کسی کے ساتھ کسی کفریہ عسکری یا سیاسی معاہدے میں شریک ہوئے نہ خود کو مشرق یا مغرب کے آگے مقبول کروانے کی خاطر اپنے نظام میں غیروں ‏کے قائم کردہ معیارات کا خیال رکھا۔ نہ کسی کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری پابندیوں اور دھمکیوں کے آگے ہتھیار ڈالے۔ ان کا عقیدہ تھا مسلمان کی سیاست اور ان کا نظام بھی ‏اسلامی ہونا چاہیے۔ کچھ بونے مفکرین کو شاید ان کی جانب سے اس طرح کا مؤقف اپنانا سادہ لوحی یا معاصر دنیا کے سیاسی حالات سے بے خبری کا نتیجہ نظر آتا ہو، مگر حقیقت یہ ہے ‏کہ وہ سادہ اور بے خبر نہیں تھے۔انہوں نے اسلام کی حقیقی روح کا خیال رکھا تھا۔ وہ ایک مضبوط باشعور مسلمان تھے۔ مَیں انہیں قریب سے جانتا ہوں۔
‏    ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی فکر اور سیاست کے خلوص کا راز اسی میں تھا کہ انہوں نے دیگر معاصر سیاستدانوں اور رہنماؤں کی طرح نہ معاصر مغربی سیاسی فلسفیوں کے نظریات ‏پڑھے تھے اور نہ ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ ان کے عقائد اور سیاسی افکار کا سرچشمہ جان جاک روسو، مونٹسکو، ہوبز، جان لاک، سپینوزا، میرابو، ڈارون، کانٹ، سارٹر، میکاؤلی، فریڈ، ‏مارکس، نیچہ، چرچل اور فوکو یاما نہیں تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور صدیق، فاروق، عثمان، علی، سلمان، ابوذر، بلال، خالد اور ابن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہم ‏کے قصے سنے تھے۔ ان کے سادہ… مگر پکے اور خالص افکار ان کی پالیسی بن گئی تھی۔ اسی لیے آخری سانسوں تک شریعت کے التزام کو دنیا کی باتوں اور فرمائشوں پر ترجیح دیتے ‏رہے۔ عالمِ اسلام میں اسلامی فکر اور سیاست پر بڑے اور گہرے اثرات چھوڑے۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ اَور بھی واضح ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس تجزیے کو ایک ‏فکری انتہاء سمجھیں اور خیال کریں کہ میں مرحوم ملا محمد عمر مجاہد کی فکر اور اقدامات کی تاثیر ان کے حقیقی اندازوں سے زیادہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مگر مَیں ان لوگوں ‏کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کبھی اس طرح کے لوگ سید قطب، عبداللہ عزام اور اسامہ بن لادن کو بھی صرف افراد ہی سمجھتے تھے۔ ان کے افکار اور سیاسی و عسکری اقدامات کو سطحی ‏سمجھتے تھے کہ ان کی تاثیر کا حلقہ بہت محدود ہے۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ انہی محدود افراد کے افکار اور اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں ایسی مجاہد نسل اور ایک سیاسی و جہادی ‏تھیوری وجود میں آئی، جس نے پورے کفر کو بے بس کرکے رکھ دیا ہے۔ بڑی عسکری قوتوں کو للکارا اور ایسی قوت بن گئے، جس کا مقا بلہ کرنے سے پوری دنیا عاجز ہے۔
‏    وہ بڑے اقدامات جو ملا محمد عمر مجاہد نے اسلامی سیاست اور فکر کے سلسلے میں اٹھائے…..۔
‏1… روسیوں اور کمیونزم کے خلاف جہاد کے نتائج کو ضایع ہونے سے بچانا:۔
‏    روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف افغانستان کا جہاد، جس میں دیگر مسلم ممالک نے بھی ہزاروں کی تعداد میں اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ افغانستان روسیوں اور کمیونسٹوں ‏کے تسلط سے آزاد ہوکر یہاں اسلام نافذ ہو جائے۔ مگر مختلف عالمی اور علاقائی حلقوں اور بہت سے جہادی رہنماؤں کے غلط عزائم اور اقدامات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس وقت ‏یہ خواہش پوری نہ ہو سکی، بلکہ قریب تھا ساری قربانیاں ضایع ہوجائیں اور افغانستان کا زمینی وجود بھی ختم ہو جائے۔
‏    اس وقت خانہ جنگی اور جہادی صفوں کے انحراف کی وجہ سے افغانستان پر ایسی وحشت مسلط ہوگئی تھی، جس نے لوگوں کو چنگیز کے مظالم یاد دلائے۔ ان اختلافات اور خانہ ‏جنگیوں کے باعث افغانستان بڑی تباہی کے دہانے پہنچ گیا تھا۔ مجاہدین بدنام ہو گئے تھے۔
‏    درج بالا تمام تر نامناسب حالات کے باوجود ملا محمد عمر مجاہد نے اپنی جہادی اور اصلاحی تحریک کے ذریعے نہ صرف افغانستان کو بڑی تباہی سے بچایا، بلکہ ایک مثالی نظام بھی بنایا ‏اور جہاد کو دوبارہ وقار بخشا۔ ان کے ہاتھوں یہ سب کچھ حادثاتی طورپر نہیں ہوا ۔ بلکہ یہ سب کچھ کرنے کا ان کا پہلے سے عزم تھا۔
‏    ایک دن امارت اسلامیہ کے ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے وزیر مولوی محمد ولی صاحب شہید نے ملا محمد عمر مجاہد کے عزائم اور ہمت کے واقعات سنائے۔ کہنے لگے:۔
‏    ”یہ ان دنوں کی بات ہے، جب تحریک کو شروع ہوئے دوسرا یا تیسرا ہفتہ تھا۔ ان دنوں نہ وہ رہبر تھے نہ امیر المؤمنین… میں ملا محمد عمر کے مدرسے سے کچھ فاصلے پر ایک مسجد ‏میں طلباء کو پڑھا رہا تھا۔ قندھار، ہرات شاہراہ پر قائم ایک چین پر لڑائی اور فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ ”ملا محمد عمر نے مسلح ڈاکوؤں اور چوروں کے خلاف ‏جنگ شروع کر رکھی ہے۔” میں نے بھی کتاب بند کر دی اور اپنے طلباء کے ساتھ ان سے مل گیا۔ ایک دن ہماری لڑائی مغرب کی جانب سے قندھار شہر کے قریب پہنچی، ایک دن ‏صبح سے شام تک جنگجوؤں سے ایسی جگہ میں لڑتے رہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک پل تھا۔ شام کے وقت جنگ ختم ہو گئی۔ مَیں اور ملا محمد عمر ایک مورچے میں بیٹھے ‏تھے۔ مجھے تشویش تھی کہ ہم دو بندے صبح تک یہاں کامیاب مزاحمت کر پائیں گے یا رات کو ہی دشمن ہمیں پکڑ لے گا۔ میرے دماغ میں تو یہی سوچ تھی، جب کہ ملا صاحب کچھ ‏اور ہی سوچ رہے تھے۔ انہوں نے پریشانی اور تشویش کی اس رات میں مجھ سے کہا:۔
‏    ”مولوی صاحب! یہ جنگ مختصر عرصے یا دوچار دن کی بات نہیں اور نہ ہی قندھار پر قبضے کے بعد ہم اسی پر اکتفا کرلیں گے۔ ہم ان شاء اللہ مسلسل جہاد کرتے رہیں گے۔ قندھار ‏پر قبضہ کریں گے، پھر پورے افغانستان کو مفسدین سے پاک کریں گے۔ اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ یہ بہت طویل راستہ ہے۔ خوف اور پریشانی کو دل میں جگہ نہیں دینی ‏ہوگی۔”
‏    مولوی محمد نبی صاحب نے مزید کہا:۔
‏    ”اس تاریک اور خوف کی رات میں ملا محمد عمر کی یہ باتیں بظاہر بہت سخت اور نا ممکن عزائم تھے۔ میں سنتا رہا، مگر مجھے ایسا ناممکن لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں آسمان تک ‏چڑھیں گے….. مگر مَیں آج دیکھ رہا ہوں کہ ملا صاحب نے اللہ تعالی کے فضل اور نصرت سے اپنے تمام عزائم کی تکمیل کرلی ہے۔ فسادات اور جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اسلامی ‏حکومت قائم ہوچکی ہے۔”
‏     حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فضل، احسان اور ملا محمد عمر مجاہد کی تحریک نہ ہوتی تو آج نہ افغانستان ہوتا، نہ یہاں مجاہدین کا وجود ہوتا، نہ امریکا اور ناٹو کو شکست ہوتی اور نہ عوام میں ‏آزادی کا جذبہ موجود ہوتا۔ کمیونسٹوں کے وہ دعوے سچے ثابت ہوجاتے جو وہ کچھ جہادی تنظیموں کے متعلق کیا کرتے تھے کہ جہاد اور مجاہدین یہ امریکی ایجنٹ ہیں اور یہ پروگرام ‏امریکا نے انقلاب ثور کے خلاف شروع کر رکھا ہے۔
‏2… ملا کو سیاسی بنانا اور حکومت تک پہنچانا:۔
‏    گذشتہ طویل زمانے سے اسلامی دنیا اور افغانستان میں علماء اور متدین لوگ سیاست اور حکومت کے دائرے سے نکال دیے گئے تھے۔ معاشرے کی سیاسی، عسکری اور اجتماعی ‏قیادت کے معاملات دین سے بے خبر اور باغی سیاست دانوں، ظالم بادشاہوں کے ہاتھ میں تھے۔ دین کے باغی حکام نے اسلام کی خاطر کام کرنے والے لوگوں کے خلاف جنگ ‏اور دباؤ سے کام لیا۔ ان پر پابندیاں عائد کر کے راستہ روکنے کا ہر ممکن طریقہ آزمایا۔ قتل، پھانسی، جیلیں، منفی پروپیگنڈا اور نفیساتی جنگ سمیت تمام حربے بروئے کار لائے گئے۔ ‏یہ حالات افغانستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں تھے۔ بجائے اس کے کہ اسلام سے منسوب سیاسی جماعتیں اور ادارے خالص انقلابی اقدامات کر کے جہادی اسٹریٹجی کے ‏ذریعے حالات کو بدلنے کی خاطر اقدامات کرتے اور اس کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرتے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا اورانہی جماعتوں نے جمہوریت کی رسی تھام لی۔
‏    معاصر دور کی اسلامی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے برعکس ملا محمد عمرمجاہد نے دین بیزار معیارات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ فطری طریقے سے نظام اور سیاست کے امور کی ‏لگامیں پھر سے علماء اور مجاہدین کو تھما کر ملا کو پھر سے سیاسی بنا دیا۔ ملا کو پھر سے امیر، وزیر، سفارت کار، گورنر، فوجی، پولیس سربراہ، انتظامی سربراہ، قاضی، نگران، ضلعی گورنر، ‏استاد، سیاست دان، صحافی، ادیب اور مبصر بنا دیا۔ ملا اور معاشرے کے درمیان ٹوٹے ہوئے روابط کو پھر سے ایسے مضبوطی سے جوڑا کہ اس رشتے کوتوڑنے کے لیے سیکولر قوتوں کی ‏ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ ملا کو سیاست اور جنگ کی عملی تربیت دی۔ سیاسی، فکری اور عسکری لحاظ سے امریکی مفاد میں یک قطبی بننے والی دنیا کو پھر سے دو قطبی کر دیا۔ البتہ ملا ‏محمد عمر مجاہد کی جانب سے ملا اور طالب کو سیاسی بنا دینے کے حوالے سے ایک بات قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کی تحریک میں ملا عملی طورپر سیاسی میدان میں نکل تو آیا، مگر ‏افسوس کہ اسلامی سیاست کے معاصر علوم، کفر اور گمراہی کی معاصر قوتوں کو پہچاننے، معاشرے کے ساتھ اسلامی معاملہ کرنے کے لیے ضروری تعلیم اور عالمی قوتوں کو مخاطب ‏کرنے والی ادبیات نے اب تک ملا اور طالب کے تعلیمی نصاب میں داخل ہونے کا راستہ نہیں پایا۔ اگر طالب اور ملا کی تعلیم، نصاب اور اس کے مدرسے کا ماحول ایسا ہی رہ جائے تو یہ ‏خوف ہے کہ ملا عمر مجاہد کے افکار اور ان کا راہِ عمل آئندہ نسلوں کے لیے ایک فکری مکتب نہیں، بلکہ افغانی تاریخ کے صفحات میں محض ایک خوش گوار اور زریں حادثے کے ‏طورپر رہ جائے گا۔ اس لیے چاہیے کہ طالبان کی سیاسی اور جہادی تحریک کے فکری اور تعلیمی ذمہ داران اس ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی سطح سے آگے نکل کر اقدامات ‏کریں۔
‏3… طالب علم کو جہادی جذبہ دینا اور دین کے دفاع میں کھڑا کرنا:۔
‏    مغربی تعلیمی نظام نے اسلامی دنیا میں لوگوں کو معلومات سے بہرہ ور تو کیا، لیکن دین داری اور روحانیت سے محروم کر دیا۔ مسلمانوں کو اسلحہ بنانے اور جنگی وسائل تیار کرنے کا ‏ہنر تو سکھا دیا، مگر اسلام اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے اسلحے کے استعمال کا جذبہ اور عزم ان سے چھین لیا۔ اسلامی دنیا میں ایسے وفادار اور ماہر و چالاک غلام پیدا کیے کہ ‏مغرب سے زیادہ یہ لوگ مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے مخلص ہیں۔ اسی لیے تو عظیم مغرب شناس فلاسفر علامہ محمد اقبال نے اسلامی دنیا میں مغربی تعلیمی اداروں اور ان ‏کے شاگردوں کے کردار کی اس طرح تشخیص کی ہے ؎۔
مکتب از تدبیر او گیرد نظام
تا بہ کام خواجہ اندیشد غلام
‏    یہ مغرب زدہ لوگ ہمیشہ کبھی ترقی پسند، کبھی روشن خیال، کبھی لبرل، کبھی کمیونسٹ اور کبھی غیر جانب دار بن کر دشمن کی صف میں کھڑے ہوئے۔ مغربی تعلیم نے انہیں ‏غیرت اور دفاع کی فطری حس سے بے بہرہ کردیا ہے۔ اسی لیے تو علامہ اقبال اس تعلیم کو یوں دیکھتے ہیں ؎۔
من آں علم و فراست با پر کاہی نہ می گیرم
کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را
‏    میں وہ فراست اور ہوشیاری بھوسے کے ایک تنکے سے بھی نہیں خریدتا، جو غازی کو تلوار اور ڈھال سے بیگانہ کر دے۔ ملا عمر مجاہد ایک ایسے عسکری اتحاد کے مقابلے میں جنگ ‏جیت گئے، جس میں پچاس سے زیادہ ممالک کی فوجیں شامل تھیں۔ انہوں نے اسلامی دنیا کے نوجوانوں میں جہاد اور آزادی کے مطالبے کی ایسی روح پھونکی کہ اب دنیا کے تمام ‏سیاسی اور فکری جادو گر اسے ختم کرنے سے عاجز آگئے ہیں۔ یہ سلسلہ اور بھی پھیلے گا۔ ان شاء اللہ
‏4… سچے مسلمان حاکم کا نمونہ پیش کرنا:۔
‏    مسلمانوں نے ایک طویل عرصے سے حقیقی مسلمان حاکم کا نمونہ نہیں دیکھا۔ یہ اس لیے کہ اسلامی دنیا کی بیسویں اور اکیسویں صدی کے تقریبا تمام حکام وہ لوگ ہیں، جنہوں ‏نے یورپ، روس یا امریکا کے تعلیمی اداروں یا یونی ورسٹیوں میں پڑھا ہے۔ اسلامی ممالک میں مغربی اور مسیحی مشنریز کی جانب سے بنائے گئے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوئے ہیں۔ ‏وہ دین کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔ دین داری کا بھی بظاہر اتنا ہی مظاہرہ کرتے ہیں کہ عوام کو دھوکہ دے سکیں۔ اسلامی دنیا کے موجودہ حکام فکری لحاظ سے سیکولر، سیاسی لحاظ سے ‏میکاؤلی کے پیروکار ہیں، جو اپنے مقصد کی خاطر ہر کام کو جائز سمجھتے ہیں۔ عزائم اور ارادوں کے اعتبار سے ان کفریہ ممالک کے شہری اور شکل وصورت کے لحاظ سے مغرب کی فوٹو ‏کاپی ہیں۔ عوام سے ان کا سلوک چور، ظالم اور جھوٹے کا ہوتا ہے۔ ثقافتی حوالے سے اپنی تہذیب کے دشمن اور غیروں کی تہذیب کے نمائندے ہیں۔ یہ اقتدار تک خاندانی ‏موروثیت، فوجی بغاوت اورر مغربی جمہوریت کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ جس میں رائے دہندہ کی سمجھ داری، عقل، تجربہ اور دیگر استعدادوں کو نہیں دیکھا جاتا۔
‏    مگر ملا محمد عمر مجاہد موجودہ زمانے کے حکام کے برعکس ایک سچے مسلمان حکمران کا نمونہ تھے۔ وہ امت کے درمیان مسجد اور محراب سے اٹھے ہوئے دین دار شخص تھے ۔ دین ‏کے تقاضوں اور روح سے واقف رہنماء تھے ۔ وہ شریعت سے واقف تھے۔ اکثر ایسے کپڑے اور ایسی پگڑی پہنتے، جس کا زیادہ دھونے سے رنگ اتر چکا ہوتا۔ آخر تک انہیں نہ اپنا گھر ‏ملا نہ جائیداد اور زمین۔ وہ خود حاکم تھے، مگر ہمیشہ اپنے عزائم اور ارادوں کے حوالے سے علمائے شریعت سے پوچھتے اور ساتھیوں سے مشاورت کے بعد کوئی قدم اٹھاتے۔ اپنے دورِ ‏حکومت میں ہر بدھ کے روز قائدین اور ذمہ داران سے مشاورت کرتے۔
‏    ملا محمد عمر مجاہد ایک طاقت ور حاکم تھے، مگر ان کی زندگی فضول خرچیوں اور اسراف سے پاک تھی۔ ہمیشہ علمائ، مجاہدین اور تحریک کے ذمہ داران کے ساتھ عام زندگی گزاری۔ ‏ان کے خیال میں ان کے نظام کی مضبوطی کا راز شریعت کے نفاذ اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں تھا۔ وہ استطاعت کی حد تک امت کی وحدت کی کوششیں کرتے رہے۔ انہوں ‏نے امت کی بڑی جہادی شخصیات کو اپنے نظام میں جگہ بھی دی اور اسلحہ اور وسائل فراہم کیے۔ مہاجرین کے لیے باعزت زندگی کے وسائل مہیا کیے۔ انہوں نے نظام حکومت ‏میں امت کی وحدت کے لیے مسلمان مجاہدین اور مہاجرین سے ویزے اور پاسپورٹ کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ اس لیے کہ امت کی وحدت اور مسلمانوں کے بھائی چارے کے ‏عقیدے کے مقابلے وہ ان چیزوں کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے دیگر مخلص مسلمان بھی انہیں اپنا امیر اور رہبر مانتے تھے۔ اگر وہ خود اپنے مسائل میں ‏جھکڑے نہ ہوتے تو اس حوالے سے مسلمانوں کے لیے اور بھی بہت سے کام کر جاتے۔
‏    آج امیرالمومنین مرحوم کی وفات کو آٹھ برس ہونے کو ہیں۔ اللہ غفور ورحیم سے ان کے لیے مغفرت کا طالب ہوں۔ اسلامی ‏فکر اور محاذ کے مجاہدین سے پورے احترام سے امید رکھتا ہوں کہ اس عظیم شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کام کر کے سیاست پر ان کی تاثیر کو نمایاں کرنے کے لیے اپنی ‏ذمہ داری ادا کریں۔ اس سے پہلے کہ مغرب کے کینہ پرور مصنفین اور مفکرین کی جانب سے اس عظیم شخصیت کے بارے میں مسخ شدہ تاریخ دنیا کے سامنے آ جائے، خود ہی ان ‏کی زندگی کے تمام پہلوؤں کی تدوین اور توثیق کر دیں۔

بشکریہ امارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے