وہ بہت یاد آتے ہیں

کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 506)

بچپن سے اردو کا ایک شعر سنتے آئے ہیں لیکن آج جب عالم اسلام کی عظمت کا نشان‘ مرد غیور اور حمیت ِ اسلامی کے علمبردار ، امت ِ مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن ، ملت اسلامیہ کے عظیم راہنما‘ سادہ مزاج اور فقیر منش اللہ والے ‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے محافظ ‘ الامام العادل ‘ امیر المؤمنین ، قائد جیوش المسلمین ملا محمد مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر سنی تو یہ شعر صحیح معنی میں سمجھ آگیا :

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

عالمی ذرائع ابلاگ بھی اس جستجو میں ہیں اور لوگ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ کب مرے ہیں؟ جب کہ بندہ کہتا ہے کہ وہ بھلا کب مر سکتے ہیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں پرراج کرتے ہیں ۔ جو دنیائے فانی کی خاطر نہیں‘ عظیم اصولوں اور نظریات کیلئے جیتے ہیں ‘ جو بادشاہی میں فقیری کرتے ہیں اور تاریخ کے صفحات پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ‘ جو ہمیشہ کیلئے انسانوں کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں ‘ ایسے لوگ مرتے نہیں‘ اَمر ہو جاتے ہیں:

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدئہ عالم دوامِ ما

ہم سب آپ کے نام کے ساتھ ’’ دامت برکاتہم‘‘ اور ’’حفظہ اللہ تعالیٰ‘‘ لکھنے کے ایسے عادی ہو گئے تھے کہ کبھی دل میں یہ وہم بھی نہ گزرا تھا کہ اپنی زندگی میں یہ روح فرسا حادثہ دیکھنا ہو گا اور آپ کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ لکھنے کی بھی ہمت کرنی پڑے گی ۔ دل آج بھی آپ کی رحلت اور جدائی کے صدمے کو سہنے سے انکاری ہے اور دماغ ہزاروں تأویلات گھڑتا ہے لیکن ساتھ ہی ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ‘ جانے کیلئے ہی آیا ہے ۔ اس لیے قضاء و قدر کے فیصلوں پر راضی ہونے اور ’’ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون‘‘ کہے بغیرکوئی اور چارہ نہیں ہے ۔

تقریباً ایک صدی ہوئی جب خلافت ِ عثمانیہ کا سقوط ہوا اور مسلمانوں کی مرکزیت کا خاتمہ ہوا ‘ تب سے اہل ایمان کے دل تڑپتے تھے اور اللہ کے حضور سجدوں میں گڑ گڑا کر یہ دعائیں مانگی جاتی تھیں کہ اے الٰہ العالمین ! کوئی اپنا بندہ بھیج جو اس سر زمین پر ترا نظام نافذ کرے ‘ جو ’’ خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کا حقیقی مصداق ہو ‘ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور آپ کے لائے ہوئے دین کو عملی طور پر دنیا میں لاگو کرنے والا ہو ۔ جو قرآن مجید کی بتائی ہوئی نشانیوں ’’اذلۃ علی المومنین‘‘ (ایمان والوں کیلئے نرم) اور ’’ اعزۃ ً علی الکٰفرین ‘‘ (کافروں پر سخت گیر) کا صحیح مصداق ہو ‘ جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرے۔

عشروں یہ دعائیں مانگی گئیں ‘ برسوں قربانیاں دی گئیں ‘ سینکڑوں مسلمانوں نے اسی مقصد کیلئے اپنا تن من دھن نچھاور کیا ‘ تب پردئہ غیب سے امت مسلمہ کو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستی نصیب ہوئی ۔

بی بی سی اور سی این این سن کر رائے زنی کرنا تو بہت آسان کام ہے اور ہمارے ہاں امارتِ اسلامیہ کے بارے میں لکھنے والے اکثر اہلِ قلم کا حال یہی ہے کہ وہ کبھی طور خم اور چمن سے اُس پار نہیں گئے ۔ مغرب کے متعصب اور اسلام دشمن صحافیوں کی رپورٹوں سے معلومات حاصل کرنے والے کیا جانیں کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کس شخصیت کا نام ہے ؟ بامیان کے بتوں کو گرانے کا مسئلہ ہو یا حضرت شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ کو افغانستان سے بے دخل کرنے کا معاملہ ، ۱۹۹۹ء کے آخر میں انڈین ائیر لائن کا جہاز ہائی جیک ہونے کا صبر آزما وقت ہو یا عیسائیت کی تبلیغ اور ارتدادی سرگرمیوں میں ملوث عالمی اداروں کو افغانستان سے نکالنے کا معاملہ ، کئی دفعہ دنیا نے دیکھا کہ سب ایک طرف کھڑے ہیں اور امیر المومنین دوسری طرف لیکن اسلام کی سر بلندی کا پرچم اُنہی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ حقیقت تو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نفاذِ اسلام کے معاملے میں انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں لائے ، نہ ہی دنیا کے بے شمار مال و دولت کی لالچ اُن کے پائے استقامت میں کوئی لغزش پیدا کر سکی ۔

عبدالحمید مبارز …ایک شاہ پرست افغان مؤرخ ہیں ۔ ظاہر شاہ کے دور میں افغانستان کے کئی صوبوں کے گورنر رہ چکے ہیں ۔

فرانس کے اخبارات کے باقاعدہ کالم نگار ہیں ۔ انہوں نے فارسی میں ’’حقائق و تحلیل و قائع سیاسی اٖفغانستان ۱۹۷۳ء تا ۱۹۹۹ء ‘‘ کے نام سے افغانستان کے ماضی قریب میں بیتنے والے حالات سے متعلق کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب کا آخری باب امارت ِ اسلامیہ کے حوالے سے ہے ، جس میں انہوں نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے نظامِ حکومت کا خلاصہ مندرجہ ذیل ۱۹ ؍نکات میں بیان کیا ہے:

۱) ایک خالص اسلامی حکومت کا قیام۔

۲)اسلام کو حکومتی ومملکتی مذہب کے طور پر رائج کرنا۔

۳) نفاذ شریعت۔

۴)مساجد کو اس طرح آباد کرنا کہ ملت اسلامیہ ان میں اطمینان وسکون کے ساتھ عبادات ادا کرسکے اور زندگی گزار سکے۔

۵)سرکاری محکموں میں مخلص مسلمان ملازمین کی تعیناتی۔

۶)لسانی، قومی اور علاقائی تعصبات وتفرقات کا خاتمہ کرکے ملک کے تمام مسلمانوں میں اسلامی اخوت وبرادری قائم کرنا۔

۷) اسلامی تنظیموں اور خارجی ممالک سے دوستانہ مراسم قائم کرنا۔

۸)افغانستان میں رہنے والے غیرمسلموںکی حفاظت کا بندوبست۔

۹)اسلامی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط قائم کرنا۔

۱۰) خواتین کو سرتاپا حجاب پہناکر مستور کرنا۔

۱۱)امارت اسلامیہ افغانستان کے تمام علاقوں میں مذہبی پولیس (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کی خدمات جاری کرنا۔

۱۲) اسلامی عدالتوں کے توسط سے شرعی احکام وقوانین کا اجرائ۔

۱۳)اسلامی امارت افغانستان کو بیرونی جارحیت سے بچانے کیلئے اور اس کے دفاع وحفاظت کیلئے اسلامی فوج کا قیام۔

۱۴)دینی مدارس قائم کرنا، تاکہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بیرونی کلچر وثقافت کے اثرات سے محفوظ رہیں، ان کے دل قرآن وسنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق سے لبریز ہوجائیں اور وہ اﷲ کے راستے کے مجاہد بن جائیں۔

۱۵)بین الاقوامی سیاست کے پیش آمدہ تمام مسائل کو قرآن وسنت کے مطابق حل کرنا۔

۱۶) عالم وفاضل، قابل وباصلاحیت افراد میں سے قاضیوں کا تقرر۔

۱۷) حکومت کے اقتصادی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اور زراعت وصنعت اور معدنیات کے خزانے حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا۔

۱۸)افغانستان کی خوشحالی کیلئے اسلامی ممالک سے تعاون حاصل کرنا۔ کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرنا اور اسلامی مملکت میں اقتصادی بحران کے خاتمے کیلئے زراعت کو فروغ دینا۔

۱۹)اسلامی محصولات زکوٰۃ، خراج اور جزیہ کا نظام قائم کرنا۔

قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والا کون مسلمان ایسا ہو گا جس کا دل یہ نکات پڑھ کر نہ جھوم اٹھے ۔ آج دنیا کے نقشے پر کتنے ہی اسلامی کہلانے والے ممالک موجود ہیں لیکن اسلام کے نظامِ عبادات سے لے کر عدل و مساوات تک اُن ممالک کی جو حالت ِ زار ہے وہ یقینا کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ    کی قابلِ رشک ذاتی خوبیوں اور لائقِ تحسین اوصاف کے علاوہ اُن کے لیے نفاذِ اسلام ہی اتنا بڑا شرف اور اعزاز ہے کہ دنیا کا کوئی تمغہ ، عہدہ یا ایوارڈ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

غیروں کے زیر اثر بہت سے اپنے بھی آج اگر مگر کی ڈگڈگی بجا کر اپنا مداری تماشا دکھا رہے ہیں اور اُن کی نظروں میں امیر المومنین ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کی یہی عظیم خوبی سب سے بڑا جرم ہے ، وہ کبھی اسے دقیانوسیت کا نام دیتے ہیں اور کبھی اس پر انتہاء پسندی کا لیبل چسپاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو امریکہ کے مظالم نظر آتے ہیں اور نہ ہی یورپ کی چیرہ دستیاں ، یہ اہلِ کفر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی تو جرأت نہیں رکھتے اس لیے ان کی تنقید کا سارا ملبہ بے سہارا مسلمانوں پر ہی گرتا ہے ۔ ایسے نام نہاد دانشوروں کی خدمت میں تو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہی عرض کیا جا سکتا ہے :

تم شہرِ اماں کے رہنے والے ، درد ہمارا کیا جانو؟

ساحل کی ہوا تم موج صبائ، طوفان کا دھارا کیا جانو؟

آغاز سر ایمان و یقین ، انجام عمل اک شام حسیں

بِن دیکھے حسن کی منزل کو ، یہ رستہ پیارا کیا جانو ؟

رستہ ہی یہاں خود منزل ہے ، ٹھوکر ہی یہاں اک حاصل ہے

اے سود و زیاں گننے والو ، کس نے ہے پکارا کیا جانو ؟

ان راہوں میں فردوسِ بریں ، ان گلیوں میں جنت کے مکیں

اِن تیکھے الجھے رستوں میں ہے کون سا دھارا کیا جانو ؟

سمجھے ہیں جسے گلزار سبھی ، اک آگ ہے عصر حاضر کی

تمہید سے تم گزرے ہی نہیں ، اب قصہ سارا کیا جانو ؟

اے قیسِ عصر جو کالج میں چھ چار جماعتیں پڑھ بیٹھے

تم واقفِ نقشِ رنگِ حنا ، خوں کا فوارہ کیا جانو ؟

ربِّ رحمان کے بندے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ ،اہل پاکستان کیلئے بھی بلا شک وشبہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھے ۔دیمک خوردہ دماغ اور زخم خوردہ روح رکھنے والے ہمارے پالیسی سازوں کو اب اس حقیقت کا احساس ہو رہا ہے کہ وہ کیا متاع عزیز تھی جو انہوں نے گم کر دی ،وہ کیا شمع تھی جس کے بجھتے ہی سر زمین افغانستان پر پاکستانی مفادات گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہوگئے ۔وہ کیا بے لوث سپاہی تھے جنہوں نے بڑے بڑے خطرات کو ہم سے روک رکھا تھا۔ وہ کیا کھرے لوگ تھے کہ بھارت سے صرف اس لیے بگاڑے رکھی کہ وہ اسلام اور پاکستان مخالف ہے ۔

گیارہ ستمبر کے خوفناک حملوں نے ورلڈ ٹر یڈ سنٹر کا سارا ملبہ ہماری عقلوں پر ڈال دیا ،اسی لیئے تو ہم بھول گئے کہ ملت فروشی اور برادرکشی جیسا المناک رویہ ہمارے ہاتھوں سرزد ہورہا ہے ۔ہم نے فراموش کر دیا کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے کرداروں پر آج ان کی اولاد بھی چار حرف بھیجتی ہے ۔اضطراب اور بے سکونی کے ان دنوں میں جن لوگوں کی کوئی ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘پر اٹکی ہوئی تھی ،وہ جواب دیں کہ پاکستانی سرحدات امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے دور میں زیادہ محفوظ تھیں یا آج ؟ بلوچستان جوآج ہمارے لئے گہری دلدل اور تپتے صحرا میں تبدیل ہورہا ہے ،اس کے پس منظرمیں موجود افغان سرزمین پر بھارتی قونصل خانے کس کی مدد اور تعاون سے قائم ہوئے؟ اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے والے عقل وخرد سے عاری لوگ، اب کلہاڑی کو الزام نہ دیں کہ وہ ان کے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہے۔

 امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ ایک حقیقت ہیں۔ ان کا کردار کھلی ہوئی کتاب کی مانند اقوام عالم کے سامنے ہے۔ جو لوگ روز مچھروں کی طرح وجود میں آتے ہیں اور چیونٹیوں کی طرح فناء ہوجاتے ہیں، وہ کیا جانیں کہ تاریخ کی پیشانی کا حسین جھومر، انسانیت کے چہرے کا غازہ، اعلیٰ اخلاق وکردار کے امین، بلند ہمت، باضمیر اور بامروّت امیر المؤمنین ملا محمد عمر المجاہد جیسے لوگ ہی اپنے نظریے پر حکومت اور ریاست قربان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، ورنہ ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں؟

اس سلسلے میں یہ گواہی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے اپنی کہانی ، خود اپنی زبانی میں آپ کی جرأت اور استقامت کا یوں تذکرہ کیا ہے :

’’یہ نائن الیون سے تین برس پہلے کی بات ہے ، ستمبر ۱۹۹۸ء میں پاکستانی اعلی عہدیدار نے سعودی انٹیلی جنس کے وزیر پرنس ترکی الفیصل کے ساتھ ملا عمر سے قندھار میں ملاقات کی اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے پر زور دیا ۔ شہزادے نے طالبان کے قائد سے کہا کہ آپ نے تین ماہ پہلے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیں گے ، مگر اب آپ اسامہ کو سعودی عرب کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں ۔ شہزادے نے ملا عمر سے شکایت کی کہ یہ صرف امریکہ کا معاملہ نہیں ، اسامہ سعودی عرب میں بھی حکومت کے خلاف تحریک کا روحِ رواں ہے ۔ طالبان اسے سعودی عرب کے حوالے کرنے کا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتے ۔

اس موقعے پر پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے ملا عمر سے کہا ، روسیوں کے خلاف جہاد کو پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے سپورٹ کیا تھا ، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کو ناراض نہ کریں ۔ وہ اسامہ کو یا تو افغانستان سے نکال دیںیا پھر اسے اس کے اپنے ملک کی حکومت کے حوالے کردیں ۔ پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے ملا عمر سے کہا ، اسامہ پاکستان سے طالبان کے تعلقات پر بھی برے اثرات ڈال سکتا ہے ۔ انہوں نے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ اسامہ کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ بھی کر سکتا ہے ۔ اگر اسامہ کو افغانستان سے نکال دیا جائے گا تو دوسرے ممالک بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کر لیں گے ۔ شہزادے نے بار بار تین ماہ پہلے کے وعدے کا حوالہ دیا ۔ ملا عمر نے بڑی استقامت سے یہ دبائو سہا ، آخر میں کہا ، شہزادہ صاحب آپ کو جھوٹ زیب نہیں دیتا ، میں نے آپ کے ساتھ کبھی کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ ملا عمر نے کہا ، بڑے افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب اس موقعے پر افغانستان کی مدد کرنے کی بجائے ہم پر اسامہ کا بہانہ بنا کر دبائو ڈال رہے ہیں ۔ اسامہ کو اس وقت بے یا رو مدد گار کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کہ جب کوئی بھی ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کو شمالی اتحادوالوں سے بھی خطرہ ہے جنہیں ایران کی مدد حاصل ہے ۔ شہزادہ کچھ دیر تک ضبط کرتا رہا لیکن پھر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ۔

اس نے ملا عمر پر انگلی تانی جو ملا عمر کو خاصی ناگوار گزری ۔ اچانک ملا عمر اٹھے اور غصے سے باہر چلے گئے ۔ ایک گارڈ بھی ان کے پیچھے گیا ۔ چند منٹ بعد ملا عمر واپس آئے تو ان کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور قمیص بازوئوں سمیت گیلی ہو رہی تھی ۔ ملا عمر نے کہا ، میں دوسرے کمرے میں اس لیے گیا تھا تاکہ اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اپنے آپ کو ٹھنڈا کر سکوں ۔ شہزادے اگر تم میرے مہمان نہ ہوتے تو آج میں تمہیں عبرت ناک سزا دیتا ، ملا عمر کی اس سخت ڈانٹ پر عرب شہزادہ سہم سا گیا ۔ اس کے بعد ملا عمر کا غصہ آہستہ آہستہ فرو ہو گیا ۔ انہوں نے کہا ، میں اسامہ کا فیصلہ کرنے کے لیے سعودی اور افغان علماء پر مشتمل ایک کونسل بنانے کے لیے تیار ہوں ۔ اس موقعے پر ملا عمر نے اسامہ ہی کی طرح سعودی عرب میں امریکی فوج کے آنے کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور کہا کہ سعودی عرب کو آزاد کرانے کے لیے ساری مسلم امہ کو متحد ہو جانا چاہیے ۔

ملا عمر نے کہا ، پرانے سعودیوں کو اپنی عزت کا احساس ہوتا تو وہ کبھی بھی امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں داخل نہ ہونے دیتے ۔ انہوں نے کہا ، میں نے اسامہ سے یہ لکھوالیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت میں رہ کر کسی دوسرے ملک کے خلاف کاروائی میں ملوث نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ایک بار پھر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا : مجھے بہت افسوس ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان اسامہ کے بحران میں طالبان کے بجائے امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ملا عمر کی یہ جرأت گفتار ان کے ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت تھی ‘‘۔

ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کی خارجہ پالیسی کیا تھی؟ وہ امریکہ جیسی طاقت سے کیوں مرعوب نہیں ہوتے تھے؟ انہیں اپنے پڑوس میں روس جیسی مضبوط ریاست کیوں نہیں ڈرا سکتی تھی؟ ہمیں تو بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے اُن سے محبت وعقیدت اس لیے ہے کہ انہوں نے چند روزہ دور حکومت میں قرآن کریم کو گھروں اور مساجد کی الماریوں سے نکال کر عدالت اور بازار میں قانون کا درجہ دے دیا، انہوں نے اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام نافذ کرکے ثابت کردیا کہ جدید دور، اکیسویں صدی، ماڈرن اسلام، عالمی برادری اور انسانی حقوق یہ سب نہ کرنے کے بہانے ہیں اور:

’’جو تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں‘‘

انہوں نے بامیان کے بت گراکر ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی بت شکنی کی یاد تازہ کردی، انہوں نے چیچنیا کی آزاد مسلم ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کرکے حق اخوت ادا کردیا، انہوں نے حاکم اور رعایا کے درمیان فرق کو مٹاکر اس تیسری دنیا کی روایت ہی بدل ڈالی جہاں کے عوام بھوکوں مرتے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ بدہضمی کی وجہ سے کوچ کر جاتے ہیں، جہاں رعایا بے گھر اور بے در ہوتے ہیں لیکن صدر اور وزیر اعظم کے ایوان پورے شہر کا منظر پیش کرتے ہیں۔

آپ کے سادہ طرز زندگی ، خوبصورت طرز ِ معاشرت اور اخلاقِ کریمانہ نے ہر اُس شخص کا دل موہ لیا تھا ، جس نے کبھی آپ سے ملاقات کی ہو۔ پاکستان کے کئی نامور صحافی اور کالم نگار اپنے جذبات کا اظہار اپنے کالموں میں کر چکے ہیں ۔ برادرِ عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مقبول و معروف کتاب ’’ میں نے کابل بستے دیکھا ‘‘ میں امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کی منظر کشی یوں کی ہے :

’’ہمارے سامنے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کھڑے تھے۔ دراز قد، وجیہ شکل وصورت، سرپر سیاہ عمامہ رکھے، سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ملا صاحب نے سب مہمانوں سے معانقہ کیا اور پھر انہیں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے، خود بھی اس مسہری کا سہارا لے کر بیٹھ گئے جس پر گدّا تو بچھا ہوا تھا مگر چادر غائب تھی۔ ملا صاحب نے خود اسی مسہری سے ٹیک لگائی اور مہمانوں کو گاؤ تکیے پیش کیے۔ بیٹھنے کے بعد کچھ دیر تک تو سبھی مہمان اس عظیم شخص کی جانب دیکھتے ہی رہے جو اتنے بڑے ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے بھی اس قدر سادہ طرز میں زندگی بسر کر رہا تھا۔

جی ہاں! امیر المؤمنین کے کمرۂ ملاقات میں نہ آرام دہ صوفے تھے، نہ خوبصورت کرسیاں، نہ کاغذات صدارت سے سجی دھجی میز تھی اور نہ ہی کمرے کی چھت پر کوئی چمکتا دمکتا فانوس لٹکتا نظر آرہا تھا۔ بس ایک افغانی قالین تھا جو پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا اور اس کی چاروں جانب افغان طرز کے مطابق روئی کے گدے رکھے ہوئے تھے۔ افغانستان کے اکثر علاقے اگرچہ گرمیوں میں بھی مناسب موسم رکھتے ہیں مگر قندھار ان میں سے نہیں۔ شہر کے آس پاس پھیلے ہوئے وسیع وعریض ریگستانی علاقے کی وجہ سے گرمیوں میں اس شہر میں شدید گرم موسم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود امیر المؤمنین کے دفتر میں ہماری متلاشی نگاہوں کو ایک بھی ایئر کنڈیشن دکھائی نہیں دیا۔ کیونکہ ملا محمد عمر اور ان کے دیگر عہدیدارانِ امارت ایسے ہی موسم میں گزر بسر کرتے رہے ہیں۔

امیر المؤمنین نے مہمانوں سے انتہائی دھیمے انداز میں خیر وعافیت دریافت کی اور پھر باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوا۔ گفتگو کے دوران طالبان حکومت کی داخلی وخارجی پالیسیوں کے بارے میں مختصر مگر سیر حاصل بات چیت ہوئی۔ ملا عمر صاحب نے آنے والے مہمانوں کے مشورے خندہ پیشانی سے سنے اور مختصر الفاظ میں ان کے سوالات کے جوابات دئیے۔ گفتگو کے دوران جب بعض مہمانوں نے طالبان کے راہنما کومشورہ دیا کہ وہ بیرونی دنیا میں طالبان کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک باقاعدہ وفد ترتیب دیں تو ملا صاحب نے جواب دیا کہ یہ کام اگرآپ لوگ کریں تو زیادہ بہترہے۔ کیونکہ طالبان کے حق میں اپنوں سے زیادہ غیروں کی گواہی مؤثر ہوسکتی ہے۔

ملا صاحب سے ہمارے وفد کی گفتگو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہی اور پھر ہم نے ان سے رخصت ہونے کیلئے اجازت چاہی۔ رخصت کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ پھر سب سے معانقہ کیا۔ اس موقع پر ہمارے ایک دوست نے جب ان سے کہا کہ ’’دعا کیجئے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائیں‘‘ تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا ’’اﷲ تعالیٰ آپ کو وہ مقام عطا فرمائیں جو انہیں پسند ہو۔‘‘ اور پھر ہم سب امیر المؤمنین سے رخصت ہوگئے‘‘۔

انہوں نے سیدھا سادھا اور صاف ستھرا عدالتی نظام قائم کیا جہاں انصاف سربلند اور ظلم سرنگوں ہوتا تھا، انہوں نے ایک مسلمان ملک میں عیسائی مشنریوں کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کو لگام دی۔ انہوں نے ہمہ وقت حالت جنگ میں ہونے کے باوجود اپنے عوام کی زندگی آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سچ تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ دنیا بھر کے مظلوموں کو ظلم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کا سبق سکھایااور تہذیب کے خوشنما پردوں میں پوشیدہ عالمی غنڈوں کی ہر بات ماننے سے انکار کردیا۔

بلاشبہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ نے وہ سب کچھ کردیا، جو کچھ وہ کرسکتے تھے، اسی لیے تو دنیا بھر کا کفر اور نفاق ان کے مقابلے میں یکسو اور متحد تھا اور ہم نے میڈیا میں یہ مناظر بھی دیکھے کہ امریکی، آسٹریلو ی، برطانوی اور فرانسیسی نومسلم بھی امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے لشکر کے شانہ بشانہ برسر پیکار تھے۔ گویا آپ حق وصداقت کی وہ شمع فروزاں تھے جن کی طرف فرزندانِ توحید پروانہ وار لپکتے تھے۔

آج کی زندہ حقیقت یہ ہے کہ غیروں کی بمباری اور اپنوں کی ستم رانی کے باوجود امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے ساتھی اپنے پورے عزم وحوصلے کے ساتھ موجود ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے والے ان کے حملے ان کی توانائی اور جوانی کی دلیل ہیں۔ وہ بوریا نشین ایسے نہ تھے جنہیں صرف اپنی حکومت اور صدارت بچانے کیلئے ایمان اور غیرت کی قربانی دینی پڑتی، وہ کل قصر شاہی میں تھے تو ان کے بال وپرسلامت تھے اور آج پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرچکے ہیں تو بھی ان میں شاہین کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔

 امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ یاد آتے ہیں اور بہت یاد آتے ہیں…وہ کیوںیاد نہ آئیں کہ انہوں نے جس طرح وفا کے پھولوں سے زمانے کی مانگ بھردی اس کے سامنے وفا کی تمام عشقیہ داستانیں بھی معمولی نظر آتی ہیں۔

ان للہ ما أخذ و لہ ما اعطی و کل شی ء عندہ بأ جل مسمی ۔ القلب یحزن والعین تد مع ولا نقول الا ما یرضی بہ ربنا تبارک و تعالیٰ ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون … انا بفراقک لمحزونون … یا امیر المؤمنین۔

عجب اک شان سے دربار حق میں سرخرو ٹھہرے

جو دنیا کے کٹہروں میں عدو کے روبرو ٹھہرے

بھرے گلشن میں جن پر انگلیاں اٹھی وہی غنچے

فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے