امارت اسلامیہ کا قیام بدعنوانی ، ظلم اور ناانصافی کے خاتمے اور ملک میں مرکزی اسلامی حکومت کے قیام کے لئے عمل میں لایا گیا تھا، وطن عزیز پر امریکی جارحیت کے بعد ہماری جدوجہد کے دو اہم اہداف ہیں جن میں افغانستان کی آزادی اور اسلامی نظام کا نفاذ شامل ہے۔
کابل حکومت اور جارحیت کے حامی کچھ میڈیا اور تجزیہ کار بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ طالبان کس طرح کا اسلامی نظام چاہتے ہیں؟ وہ جان بوجھ کر عوام میں اضطراب پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلامی نظام کو ایک نامعلوم اور ناقابل عمل نظام کی حیثیت سے دکھانا چاہتے ہیں۔
اسلامی نظام ظاہری لحاظ سے اور نہ ہی عملی طور پر کوئی مبہم نظام ہے، قرآن مجید ، احادیث اور فقہ میں اسلامی نظام کی تعریف اور اصول بیان اور مرتب کیے گئے ہیں اور عملی طور پر اسلامی نظام نے سیکڑوں سالوں تک حکمرانی کی ہے، اسلامی نظام کے امن اور ہمدردی کے سائے میں دنیا کے مختلف کافروں نے پر امن زندگی بسر کی ہے، اور اسلامی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب اسلامی دنیا اپنے نمک حرام بیٹوں کی غداری کی وجہ سے اسلامی نظام کے نفاذ سے محروم ہے اور سیکولرازم اور کمیونزم کے ظالمانہ نظام کا شکار ہے۔
ہم افغانستان میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں؟
ہم اپنے پیارے ملک میں ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جہاں قاتل کو قصاص کیا جائے، ڈاکو کو سزا دی جائے، زانی پر حد جاری کیا جائے، ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکا جائے، مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلائے، رشوت لینے والا کو سزا دی جائے، غاصبوں سے بیت المال اور مظلوم شہریوں کے حقوق واپس لئے جائیں۔
ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں خواتین کے تمام حقوق محفوظ ہوں، وراثت میں انہیں حق حاصل ہوں، دشمنی میں انہیں نہ دیا جائے، شادی اور شوہر کے انتخاب کا حق انہیں حاص ہو، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگائیں، عورت کو شرعی حجاب میں تعلیمی، صحت، تجارتی اور معاشرتی معاملات میں معاشرے کی خدمت کرنی چاہئے۔
ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ہماری ملکی سالمیت کا تحفظ ہو، ہمارا ملک غیر ملکی فوجوں، اجنبی نظریات اور مغربی قانون سے پاک ہو۔
ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جو ہماری مذہبی اقدار ، قومی مفادات ، اپنی ثقافت اور ہماری روایات کا تحفظ کرے۔
ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جو لوگوں کے معاشرتی اور انفرادی حقوق اور حیثیت کا تحفظ کرے، لوگوں کی جان، مال، عزت اور وقار کو کوئی بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا اور ہماری زندگی کے سارے معاملات شریعت کے مطابق ہوں۔
ہم ایسے نظام کو برداشت نہیں کرسکتے جس میں قوم کا قاتل مارشل، چور جج اور غاصب سینیٹر ہو۔
ہم ایسا نظام نہیں چاہتے جس میں صدر فخر کے ساتھ اپنا بنیادی کام نیویارک اور واشنگٹن کی حفاظت کرنا سمجھیں اور اسی لئے وہ افغان بچوں اور خواتین کو مار ڈالیں، مساجد ، مدرسوں ، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کریں اور قابض افواج کے جرنیلوں کو پھولوں کے ہار پہنائیں اور تمغوں سے نوازیں۔
ہم ایسا نظام نہیں چاہتے جہاں ایوان صدر میں انتظامی اور اخلاقی کرپشن عروج پر ہو، اور اس طرح کی شرمناک اور گھناؤنی حرکتوں کا حکام کی برطرفی اور تنصیب میں فیصلہ کن کردار ہو۔
ہم ایسی جمہوریت نہیں چاہتے جہاں قابض ممالک کے سول اور فوجی حکام صدر مملکت کی آگاہی کے بغیر آتے ہیں، صدر مملکت کو فوجی اڈہ طلب کرتے ہیں اور پھر فوجیوں کی لائن میں ایک سپاہی کی طرح کھڑا کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جو مرد و خواتین ، جوان اور بوڑھے ، مسلمان اور کافر کے حقوق کا تحفظ کرے، جو امن و انصاف فراہم کرے، اپنے حقوق کا دفاع کرے، آزادی کو برقرار رکھے، ہر حملہ آور اور باغی کو عبرتناک شکست دے اور اپنے دین، ملک ، عوام ، عزت ، مفادات اور وقار کو اپنی ترجحیات میں شامل کرے، ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں کہ ہمارے روحانی اور مادی مفادات کسی بھی دوسرے نظام کی نسبت اسلامی حکومت میں زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ اسلامی نظام ہمارا وہ قدر مشترک ہے جس میں تمام اقوام اور طبقات اپنے حقوق اور مفادات محفوظ دیکھتے ہیں اور صرف اسلامی نظام ہی خوشحال، ترقی یافتہ اور مستحکم افغانستان کی ضمانت دے سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے