تحریر: سیف العادل احرار
اشرف غنی نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں جنگ بندی کا اعلان کریں، اشرف غنی کی اس اپیل سے وہ منظر سامنے آیا جب 2001 میں امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور رمضان کے مقدس مہینہ میں نہتے شہریوں اور اسلامی حکومت کے سپاہیوں پر کلسٹر بموں اور کروز مزائلوں کی بارش کر دی، مغرب سے آئے ہوئے حملہ آوروں نے افغان مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، طاغوتی لشکر نے ماہ رمضان میں خون کی ندیاں بہا دیں، اس وقت شمالی اتحاد کے سرکردہ رہنما برہان الدین ربانی نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ طالبان پر بڑے بڑے یعنی خطرناک بم برسائے، ہزاروں مجاہدین قندوز اور مزارشریف میں محصور ہوگئے، امریکہ اور نیٹو حملہ آور فضائی حملے کررہے تھے جب کہ رشید دوستم اور دیگر کمانڈروں کی سربراہی میں شمالی اتحاد کے جنگجو ماہ رمضان میں مجاہدین کے قتل عام میں مصروف تھے، اس وقت تو کسی کو ماہ رمضان یاد نہیں آیا، کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ امریکہ اور نیٹو افواج تو غیر مسلم اور ہمارے اسلام اور ملک کے دشمن ہیں، وہ ہمارے بھائیوں کو اپنے ہی ملک میں کس جرم کی پاداش میں نشانہ بنارہے ہیں، اس وقت تو سارے جشن منارہے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال رہے تھے اور ان اعلانات سے محظوظ ہورہے تھے کہ آج اتنے طالبان مارے گئے، آج اتنے طالبان گرفتار ہوئے، اس وقت تو کسی نے ماہ مقدس میں جنگ بندی کی اپیل نہیں کی۔
اشرف غنی کی اس اپیل سے مجھے 2014 سے 2020 تک زمانہ یاد آیا، ان کے دور حکمرانی میں ان کی فورسز نے ملک بھر میں نہتے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا، ظالمانہ کارروائیوں اور چھاپوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں شہریوں کو نشانہ بنایا، ان سات برسوں میں کتنے گھر اجڑ گئے، کتنے مائیں رونے لگیں، کتنے بچے یتیم ہوگئے، حال ہی میں خوست، قندہار، قندوز، بادغیس سمیت دیگر صوبوں میں کتنے شہری ان کی درندگی کا نشانہ بن گئے، کیا انہوں نے اس پر غور کیا؟ ملک پر جنگ کس نے مسلط کی ہے، کون کس کے آلہ کار ہے، ڈالر اور ہتھیار کون فراہم کررہا ہے؟ شادیوں، جنازوں، ہسپتالوں، مساجد، مدارس اور تعلیمی اداروں پر کس کی جانب سے حملے ہورہے ہیں؟ قومی شاہراوں پر ٹرانسپورٹر اور ڈرائیور کس کے ظلم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں؟ جنگ کی تیاری کی باتیں کون کررہا ہے؟ واشنگٹن اور نیویارک کے تحفظ کے لئے ستر ہزار فوجیوں کو قربان کرنے والے کس منہ سے طالبان سے یک طرفہ جنگ بندی کی اپیل کررہا ہے؟ ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے۔
اشرف غنی یہ مطالبہ غیر معقول اور غیر سنجیدہ ہے، جب تک ملک میں قیام امن کے لئے ماحول سازگار نہ ہو، ملک پر قابض افواج کا قبضہ برقرار ہو، قابض دشمن کے ڈرون اور فضائی حملے اور افغان فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں جاری ہو، ان حالات میں جنگ بندی کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے، اشرف غنی جانتے ہیں کہ طالبان جنگ بندی کریں گے اور نہ ہی ان کی اپیل کا جواب دیں گے، لیکن جنگ بندی کی اپیل کی آڑ میں وہ پروپینگڈہ مہم شروع کریں گے، طالبان پر الزام لگائیں گے کہ ماہ مقدس میں بھی خونریزی سے گریز نہیں کرتے، جب کہ ملک کے مختلف شہروں میں افغان فورسز نے نہتے شہریوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں، ایک جانب پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کرنا اور دوسری جانب جنگ بندی کی اپیل کرنا متضاد پالیسی اور دوغلاپن کی انتہا ہے ۔
امارت اسلامیہ ملک میں پائیدار امن اور مستحکم افغانستان کے لئے پرعزم ہے، امریکی جارحیت کے خلاف مجاہدین کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں، ان قربانیوں کی بدولت امریکی جارحیت کا خاتمہ ممکن ہوا، جس مقصد کے لئے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہ مقصد اب تک حاصل نہیں کیا گیا ہے، مقصد کے حصول تک جہاد جاری رہے گا، جارحیت اور اس کے مضر اثرات کا خاتمہ اسی جہاد کے بنیادی مقاصد ہیں، ماہ رمضان میں جہاد کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے، طالبان کی جنگ کسی زمین پر قبضہ کرنے یا دنیاوی مقصد حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لئے مقدس جدوجہد ہے، ماہ رمضان میں جہاں نفلی عبادات کی فضیلت فرائض اور فرائض کی فضیلت ستر گنا بڑھتی ہے، جہاد بھی ایک فرض عبادت ہے اور ماہ رمضان میں اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو مجاہدین کے لئے خوش آئند امر ہے اور اسی جدوجہد کی بدولت اللہ تعالی نے انہیں سرخرو فرمایا، امریکہ اور نیٹو سمیت 48 ممالک کو شکست دی گئی، بیس برس تک قابض افواج کے خلاف نبردآزما ہونے کے بعد ایک بار پھر آزادی کے علمبردار فتح یاب ہورہے ہیں، یہ افغان عوام کی حمایت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا، اشرف غنی کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل مگرمچھ کے آنسو کے مترادف ہے، ایک جانب پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کرنا اور دوسری جانب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے جنگ بندی کی منت سماجت کرنا دوغلاپن ہے، جس پر امارت اسلامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اگر اشرف غنی نے واقعی اور خلوص نیت سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے تو سب سے پہلے خود یک طرفہ طور جنگ بندی کا اعلان کرتے اور طالبان قیدیوں کو رہا کرتے اور پھر طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کرتے، عوام بھی سمجھ جاتے کہ اشرف غنی واقعی ماہ رمضان میں جنگ بندی چاہتے ہیں، قوم جانتی ہے کہ اشرف غنی اور کابل حکام نے گزشتہ پانچ، چھ برسوں میں کتنے ڈرامے کئے، ان کی نیت پر سب لوگ شک کرتے ہیں، قیدیوں کی رہائی کے عمل میں رخنہ ڈالنے اور امریکی دباو کے نتیجے میں چھ ماہ کی تاخیر سے انہیں رہا کرنے سے اشرف غنی اور ان کے حواری بے نقاب ہوگئے، عوام اور طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اشرف غنی کو پیشگی اقدامات کرنے ہوں گے، عجلت میں کئے جانے والے فیصلے اور اقدامات شرمندگی کے باعث بنتے ہیں، اشرف غنی نے ایک سال قبل جو موقف اختیار کیا تھا، اس سے پسپائی اختیار کرنے سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی، وہ یوٹرن لینے میں مہارت رکھتے ہیں، ان پر کون اعتماد کرے گا، اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لئے چند ضروری اقدامات اٹھانا ناگزیر ہیں۔
امارت اسلامیہ نے امریکی جارحیت کے آغاز سے آج تک یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ ماہ مقدس میں ظالمانہ کارروائیاں بند کی جائیں، جنگ بندی کا یک طرفہ مطالبہ غیر معقول اور کمزوری کی علامت ہے، ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ تک مسلح اور سیاسی جدوجہد جاری رہے گی، اللہ تعالی کی مدد اور عوام کی حمایت سے مجاہدین منزل پانے کے قریب پہنچ گئے ہیں، آج نہیں تو کل ہم ملک کی آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے اور اسلام کے عادلانہ نظام کے ثمرات سے مستفید ہوں گے، مجاہدین کی گرانقدر قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اسلامی نظام کی راہ میں جو رکاوٹ آئے گی اس کو ہٹانے کے لئے مجاہدین پرعزم ہیں، رمضان المبارک کے مہینہ میں جو مجاہدین شہادت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں وہ بھی خوش قسمت ہیں اور جو مجاہدین اللہ کی راہ میں جہاد کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں ان کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ماہ رمضان نیکیوں کا سیزن ہے، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجاہدین بڑے شوق اور جذبے سے دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں، یہ کوئی ناجائز جنگ نہیں ہے جس کی روک تھام یا عارضی بندی کے لئے اشرف غنی بھیک مانگ رہے ہیں، دراصل یہ موصوف کی کم علمی اور اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے، جہاد کا فریضہ موقوف نہیں ہوتا، جہاد جاری رہے گا، اللہ تعالی مجاہدین کی قربانیاں قبول فرمائے اور وطن عزیز کو آزاد اور اس میں اسلامی نظام نافذ فرمائے۔ امین

بشکریہ الامارہ اردو ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے