اگرچہ کابل انتظامیہ کی فوجوں اور ملیشا کی جانب سے تعلیمی مراکز میں چوکیوں کا قیام، اسکول اور تعلیمی اداروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، مدارس دینیہ پر چھاپے، طلبہ اور حفاظ کو شہید کرنا اور مدارس دینیہ کی بےحرمتی سالوں سے معمول بن چکا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں ماضی کی نسبت بہت تیزی آئی ہے۔
چند ماہ قبل جب اشرف غنی کا نائب امراللہ صالح کابل شہر میں گوریلا حملوں کی روک تھام میں عاجز ہوا، تو مدارس دینیہ سے انتقام لینے کا آغاز کیا۔ کابل شہر اور بندوبستی علاقوں میں متعدد مدارس پر چھاپے مارے، مدارس دینیہ کے اساتذہ، شیوخ اور طلبہ کو کسی جرم کے بغیر صرف طالب ہونے کے جرم میں حراست میں لیا گیا۔حالیہ دنوں میں ملک کے جنوب مشرق صوبہ خوست میں استعمار کی تربیت یافتہ جرائم پیشہ ملیشا فورس ( ضربتیان) کی جانب سے مدارس دینیہ پر چھاپوں اور حملوں کا آغاز ہوا ہے۔ چند روز قبل کمیشن برائے تعلیم و تربیت اور ہائیرایجوکیشن امارت اسلامیہ نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کٹھ پتلی انتظامیہ کی فوجوں کے اس مذموم منصوبے سے پردہ اٹھایا، جو صوبہ خوست میں مدارس دینیہ کو آپریشن کا ہدف بنانا چاہتا ، تاکہ طلبہ اور علوم دینیہ کے شاگردوں میں خوف پھیلا کر اس طریقے سے علم و دانش کے مراکز بند اور تعلیمی سلسلے کو منقطع کردیں۔
اس سے قبل بھی خوست سے ایسی رپورٹیں شائع ہوئی کہ ضربتی نامی قاتلوں نے علماء دین، حفاظ قرآن، یونیورسٹی کے طلبہ کو بناء کسی جرم اپنے ہی گھروں میں شہید کیے تھے۔ مگر ان جرائم کے بارے میں علم و دانش کے دعویدار اور ذمہ دار سمجھنے والے ادارے اور تنظیمیں اب تک خاموش ہیں اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
ان تنظیموں اور اداروں نے ہمیشہ امارت اسلامیہ پر اسکولوں کو بند اور علم کے شعبے میں خلاف ورزیوں کے الزامات لگاتے ہیں اور اسی موضوع سے پروپیگنڈے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر سال لمبی لمبی رپورٹیں اور اعداد وشمار شائع کرتے ہیں۔ انہیں کابل انتظامیہ کی جانب سے مدارس دینیہ کو درپیش خطرات پر توجہ دینی چاہیےتاکہ اسے علم کی دشمنی سے روک دیں۔
دشمن کو جان لینا چاہیے کہ علم اور مدرسہ سے دشمنی کوئی معمولی بات نہیں ہے،بلکہ ایک حساس معاملہ ہے۔ مدارس پر حملے اور مذہبی اداروں کی بےحرمتی دشمن کے سیکولر ہونے کی شناخت کو مزید بےنقاب کریگی اور اس کے خلاف افغان مؤمن قوم کے نفرت اور انتقام کے جذبے کو تقویت ملے گی۔
جنگ سے متعلقہ تمام مذہبی اور موجودہ انسانی قوانین حکم دےرہا ہےکہ عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے اور بےغرض اشخاص کو جنگ کا ہدف نہیں بنانا چاہیے۔ انہیں نشانہ بنانا عظیم ظلم، گناہ اور جنگی جرم ہے۔ لہذا مدارس دینیہ، دارالحفاظ، مساجد، علماءکرام، طلبہ اور اسٹوڈٹنس کی حفاظت کی ضمانت ہونی چاہیے ۔تاکہ وہ کبھی بھی جنگی کاروائیوں، چھاپوں اور حملوں کا نشانہ نہ بنیں۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے