تحریر:قاری حبیب

کچھ ہفتوں سے مسلسل چند میڈیا چینل یہ خبر دے رہے تھے کہ رواں مہینے کو ترکی کے استنبول شہر میں افغان امن سے متعلق ایک کانفرنس منعقد ہوگی ـ یہ کانفرنس جو بیس سال پہلے منعقد کی گئی "بون کانفرنس” کا پلس قرار دی جارہی تھی۔ اس کے بارے میں اندازے یہ تھے کہ اس میں افغانستان کے مستقبل کے حوالہ سے بنیادی فیصلے ہونگے اور آئندہ آنے والے نظام کا تعین ہوجائے گاـ
اس کانفرنس کے گزشتہ کانفرنسوں سے چند امتیازات بھی تھےـ ایک یہ کہ یہ کانفرنس بہت ہی نازک اور حساس وقت میں منعقد ہونے جارہی تھی ـ اپریل کے اختتام اور مئی کی ابتداء کے ساتھ ہی وہ تاریخ بلکہ میعاد آپہنچتا ہے جس پر امریکا اور دیگر بیرونی قوتوں کا انخلا ضروری ہےـ تو ایسے حساس وقت میں اس طرح کی بڑی،فیصلہ کن اور پر شہرت کانفرنس کا انعقاد کوئی معمولی بات نہیں ہوسکتی ـ
دوسرا یہ کہ اس کانفرنس کے حوالہ سے مسئلہ کا ایک فریق (امریکا اور اس کے اندرونی حمایتی) غیرمعمولی طور پر فعال اور سرگرم نظر آتا تھاـ جبکہ دوسری جانب دوسرا فریق (طالبان) ذرا سا اشارہ تک نہیں دے رہے تھے جس سے ان کی دلچسپی یا شرکت کا اشتیاق تک معلوم ہوسکےـ
اس ماحول سے معلوم یہ ہوتا تھا کہ استعماری قوتیں اپنے طاقتور پروپیگنڈے اور باریک دجل وفریب کے ذریعہ اس کوشش میں لگی ہیں کہ طالبان کو طوعا وکرھا ایک ایسے فیصلہ پر مجبور کردے جو عجلت کی آمیزش سے بھرپور اور امریکا کی ضرورت ہے جس کی رو سے ان کی چاہت یہ ہے کہ اپنی افواج کے انخلاء سے قبل افغان مسئلہ کے حل کے عنوان سے ایک نمائشی اور عجلت پر مبنی منصوبہ تکمیل کرسکےـ
پروپیگنڈہ ،یک طرفہ اقدامات اور ہمہ جہت دباو کے ذریعہ اپنے مخالف کو ایک چیز پر امادہ کرنا اور مجبور کرنا استعماری قوتوں کا پرانا حربہ رہا ہےـ یہ قوتیں ہمیشہ ایک کمزور مخالف کو اسی طرح کی تمہیدات کے ذریعہ اس راستہ پر گامزن کرتی ہیں جو درحقیقت ان کا یک طرفہ مقررشدہ ایجنڈا ہوتا ہےـ کمزور تحریکیں بسا اوقات پروپیگنڈے اور پلان شدہ صورتحال کی تاب نہیں لاسکتیں اور بے روح مچھلیوں کی طرح حالات کا پانی انہیں اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں ـ
ایک ایسی صورتحال جب امریکا سے لے کر کابل،ہمسایہ ممالک اور ترکی سمیت سب جہتیں استنبول کی پراسرار کانفرنس کے لئے منصوبے تشکیل دے رہی تھیں اور تیاری میں تھیں ـ میڈیا کی زبان بھی صرف اسی موضوع سے متعلق چلتی تھی ـ طالبان نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیاـ اور بتلادیا کہ طالبان آج بھی اسی محاذ پر کھڑے ہیں ـ طالبان آج بھی وہی طالبان ہیں ـ وہی خود مختار،حریت پسند،اصول پر قائم اور اپنے فیصلوں کے حاکم طالبان ہیں ـ وہی جنھیں "بش” اور اوباما کے دور میں دشمن کا رعب متاثر کرسکا اور نہ ہی ان کی وحشت ان کا عزمِ مصمم ہلاسکاـ اور نہ آج حالات کے پلٹے اور پروپیگنڈے کے عظیم طوفان انہیں اپنے طے شدہ وژن اور راستے سے ہٹا سکے ہیں ـ
طالبان کا یہ اقدام اس لئے درست ہے کہ افغانستان کا چالیس سالہ مسئلہ عجلت اور اضطراری حالت میں منعقدہ کانفرنسوں سے حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس طرح کے اجتماعات میں شرکت مناسب ہے جن کا منصوبہ،پروگرام، تجاویز اور زمان ومکان کا انتخاب یک طرفہ ہوـ اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے فریق کو پروپیگنڈے کے دباو کے ذریعہ شرکت پر آمادہ کیا جاسکےـ
طالبان کا یہ موقف ان لوگوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ ہے جو کچھ عرصہ سے امریکا کے ساتھ طالبان کاسنجیدہ رویہ اور اخلاقی طرز عمل امریکا کی طرف میلان سے تعبیر کرتے تھے اور طالبان کو زلمے خلیل زاد کے زیر اثر سمجھتے تھےـ اب ثابت ہوگیا کہ طالبان جس طرح امریکا کے خلاف جہاد میں آزاد اور خود مختار تھےـ اسی طرح جنگ کے اختتام اور مذاکرات کے اہم دور میں بھی اپنی حریت اور فیصلہ کرنے میں استقلال کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ـ اس لئے جانبِ مقابل کو چاہیے کہ آئندہ اس طرح کے پراسرار اجتماعات اور سازشی حرکات سے اجتناب کرے؛ کیونکہ اس طرح کے اعمال امن کے قیام میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتےـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے