گزشتہ دنوں میڈیا پر ترک کانفرنس کے حوالہ سے کچھ زیادہ ہی شور اٹھنے لگاـ کابل انتظامیہ اور دیگر ممالک کے کچھ لوگ اپنے تئیں خبریں دےرہے تھے اصل صورتحال سمجھنے کے لئے امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے افغان میڈیا کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں عدمِ شرکت، بیرونی قوتوں کے انخلا اور عدم انخلا اور دیگر امور پر امارتِ اسلامیہ کا تفصیلی موقف سامنے آگیاـ اہمیت کے پیش نظر چند نکات پیش خدمت ہیں:

امارتِ اسلامیہ نے ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ فی الحال ان کی بتائی ہوئی تاریخ پر شرکت نہیں کرسکتےـ ویسے عمومی طور پر اس کانفرنس میں شرکت یا عدمِ شرکت کے حوالہ سے ابھی تک ہمارے درمیان مشاورت کا عمل جاری ہےـ ہم باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں ـ جب یہ عمل مکمل ہوگا تب ہم اپنے موقف جا اعلان بھی کردیں گے ان شاءاللہ ـ طبعی بات ہے کہ یہ کانفرنس ہو یا کوئی اور ہمیں بھرپور غور وفکر کے بعد ہی اس میں شرکت کرنی ہوگی ـ کیوں کہ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کانفرنس کا محور کیا ہے؟ اس کا ایجنڈا کیا ہے؟ اس میں شرکت کرنے والے کیا مقاصد لے کر آئے ہیں؟ جن کو میزبان کہا جارہا ہے وہ کیا رائے رکھتے ہیں؟ اگر ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ یہ کانفرنس ملک وملت کے مفاد میں ہے اور اس سے افغانستان کے مسئلہ کے حل میں کوئی معاونت مل سکتی ہے تو ہم ہمیشہ کی طرح نہ صرف یہ کہ شرکت کریں گے بلکہ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گےـ اور اگر کانفرنس کے ذریعہ ہم پر کوئی بیرونی ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہو یا اس طرح کے دیگر حربے آزمائے جارہے ہو پھر تو ظاہر ہے کہ شرکت کا تصور بھی نہیں ہوگاـ

دوحا معاہدہ افغانستان کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی اور مسئلہ کے حل کے لئے ایک بہت بڑی بنیاد ہےـ اس لئے افغانستان کے لئے جو بھی کانفرنس یا اجتماع ہو تو اس کے لئے دوحا معاہدہ کو بنیاد اور اساس ہونا چاہیےـ اس معاہدے کی ایک بنیادی شق یہ ہے کہ چودہ ماہ کے اندر سب بیرونی افواج کا انخلاء ضروری ہےـ اور چودہ ماہ کی یہ مدت طویل ترین گفت وشنید اور ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد طے کی گئی ہےـ اب اگر یہ شق عملی مرحلہ سے نہیں گزرتی اور اس میں پس وپیش سے کام لیاجاتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جانبِ مقابل وقت ضائع کررہا ہے اور اس کی کسی بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہےـ جس کے نتیجہ میں پھر امارتِ اسلامیہ متبادل آپشن اپنائے گی جو کہ عسکری طریقہ ہےـ بلاشبہ افغانستان کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب بیرونی قوتوں کا یہاں موجود ہونا ہےـ ان کا یہاں وجود کسی افغان کے لئے کسی بھی معنی میں قابلِ قبول نہیں ہےـ اس لئے اگر وہ اپنی موجودگی کو مزید طول دیں گی تو پھر انجام کی ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد ہوگی ـ

قیدیوں کی رہائی،بلیک لسٹ سے ناموں کا اخراج طے شدہ فیصلہ ہے جو دوحا معاہدہ کے متن میں درج ہےـ اب تک اس کو عمل درآمد کے مرحلہ گزارنا چاہیے تھاـ اس پر ہم کسی اور قربانی کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اس کو کسی شرط مشروط بنائیں گےـ البتہ جنگ بندی ایک مستقل مسئلہ ہےـ اس پر بین الافغان مذاکرات میں بحث ہونی چاہیے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جنگ بندی کے ہم سب سے زیادہ خواہاں ہیں ـ لیکن جنگ بندی اس وقت تک زیربحث نہیں لائی جاسکتی جب تک ہمارے جہاد کا مقصد حاصل نہ ہوجائےـ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جانب مقابل اقتدار اور ذاتی مفادات سے آگے نہیں بڑھتا ـ سنجیدگی کا اس میں فقدان ہے ـ تو اس صورتحال میں جنگ بندی نہیں ہوسکتی ـ البتہ جب ہمیں یقین ہوجائے کہ جانبِ مقابل ملی منافع کے لئے سنجیدہ ہےـ اور ہمارے جہاد کے مقاصد حاصل ہورہے ہیں پھر ہم اپنے رویہ میں تبدیلی لاسکتے ہیں ـ

آجکل مسئلہ کے حل کے لئے جتنی تجاویز سامنے آرہی ہیں وہ سب ان افراد کی ہیں جو کہ سب کے سب ہمارے سامنے ایک ہی جماعت ہے ـ ان کی تجاویز اور منصوبے خواہ کتنے ہی زیادہ ہو قابلِ اعتبار نہیں ہیں ـ اصل چیز یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالا جائےـ بیرونی منصوبوں سے حل نہیں نکالا جاتاـ دوسری بات یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعہ اقتدار کو منتقل کیا جائے تو اس بارے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اسلامی حاکمیت اور اسلامی نظام کے قائل ہیں ـ اور اسلامی نظام میں حاکم کے انتخاب کے اپنے طریقے اور بہترین طریقے موجود ہیں ـ جب ہمارے پاس اپنے طریقے ہیں تو ہم دوسروں کے طریقوں کی طرف کیوں دیکھیں؟ اگر کسی کو اس پر یقین نہیں ہے تو وہ آجائے ہمارے ساتھ بیٹھ جائے ہم اسے قائل کردیں گےـ پھر ہم نے گزشتہ بیس سال میں یہ تجربہ کیا ہیں کہ انتخابات سے ملک میں تعصبات، تفرقہ بازی اور نقصان ہی نقصان ہوا ہےـ تو اس تلخ تجربہ کے باوجود اس ناکام طریقہ کو آزمانے کی کیا ضرورت ہے؟

ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ مسئلہ کے حل کے لئے بین الافغان مذاکرات میں بیٹھنا چاہیےـ وہاں جس چیز پر بھی اتفاق ہوجائے وہی چیز بنیاد ہونی چاہیےـ اس میں ہماری چاہت تو یہ ہے کہ ایک مستحکم، مضبوط اور دائمی نظام پر اتفاق ہوجائےـ لیکن اگر افغان آپس میں بیٹھ کر کچھ مدت کے لئے ایک حکومت یا نظام پر اتفاق کرلیتے ہیں تو یہ بھی ہمیں مسئلہ کے حل کے لئے گوارا ہےـ لیکن مذاکراتی میز پر بیٹھے بغیر تجاویز پیش کرنا،منصوبے بنانا اور میڈیا میں بلافائدہ بحثیں کرنا اس کو نہ ہم حل سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کو قابل اعتناء سمجھتے ہیں ـ

ہم اپنا مکمل منشور رکھتے ہیں ـ مدون شکل میں موجود ہےـ جس میں ہر ہر چیز کے لئے واضح راستہ اور ہر ہر مسئلہ کا حل موجود ہےـ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منشور میڈیا پر نشر کرنے کا نہیں ـ بلکہ اس پر بین الافغان مذاکرات میں بحث ہونی چاہیےـ ایک ایسی فضاء میں جہاں بیرونی مداخلت نہ ہوـ اب دوسرے لوگ جو اپنی تجاویز اور منشورات نشر کرتے ہیں تو درحقیقت وہ استعمار میں رہنے کی وجہ سے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اب انہیں امریکا اور دیگر بیرونی قوتوں سے اپنے تعلق پر ناز ہوتا ہےـ وہ چاہتے یہ ہیں کہ کسی طرح میری تجویز نیرونی آقاؤوں کو پسند آجائےـ جبکہ اس کے برعکس امارتِ اسلامیہ ایک اصولی موقف رکھتا ہے کہ کوئی بھی بیرونی ملک مداخلت کا حق نہیں رکھتاـ بیشک وہ سہولت مہیا کرسکتا ہے لیکن مداخلت نہیں کرسکتاـ اسی بنیاد پر امارتِ اسلامیہ اپنا منشور بین الافغان مذاکرات میں ہی صرف افغانوں کے سامنے ہی پیش کرے گی ـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے