رمضان ‘ اللہ کا عظیم مہمان
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 644)
ماہِ مبارک ایک مرتبہ پھر ہم پر سایۂ فگن ہونے والا ہے ۔ قرآن کا مہینہ ، روزے کا مہینہ ، جو دوسخا کا مہینہ ، بدر اور فتحِ مکہ کا مہینہ ، اپنے جلو میں رحمتیں ، برکتیں اور عظمتیں لے کر آرہا ہے ۔
رمضان ‘ اللہ کا عظیم مہمان‘ ہمارے پاس ان حالات میں آرہا ہے کہ قبلۂ اول مسجد اقصیٰ لہولہان ہے ، کشمیر کی وادی میں مسلمان ظلم و ستم کے نئے طوفان کا سامنا کر رہے ہیں اور عالم اسلام میں جا بجا اہل ایمان بہتے لہو اور رِستے ہوئے زخموں کے ساتھ اس ماہِ مبارک کے استقبال کی تیاری کر رہے ہیں ۔
ہم لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے عافیت ‘ سہولت اور آسانی کے ساتھ یہ ماہِ مبارک عطا فرمایا ہے ‘ ہماری ذمہ داری سب سے بڑھ کر بنتی ہے کہ ہم اس عظیم مہمان کا شایانِ شان استقبال کریں ‘ اس میں رحمت ِ الٰہی کے خزانوں سے اپنے دامن بھریں اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کو بھی کسی وقت ‘ کسی حال میں فراموش نہ کریں
یہ مہمان کتنا عظیم الشان ہے ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ:
پیارے آقاﷺنے حضرات ِ صحابہ کرامؓ کو بار بار ، مختلف انداز اور تعبیر سے اس مہینے کی عظمت ذہن نشین کر وائی ۔ ایک مرتبہ جب شعبان کی آخری تاریخ تھی اور رمضان شروع ہونے میں بظاہر چند گھنٹے تھے ، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی رمضان کی عظمت اور قدر و قیمت پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ یہ خطبہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کو ماہِ مبارک میں بار بار خود پڑھے ، اپنے گھروں میں اس کی تعلیم کروائے اور اس کے ایک ایک جملے کو دل و دماغ میں بٹھائے ۔
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ ﷺنے ہم کو ایک خطبہ دیا۔اس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو!
٭…تمہارے پاس ایک عظمت اور برکت والا مہینہ آرہا ہے۔
٭…اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
٭… اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے کو) نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے)
٭… جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے (فرض کے علاوہ مزید ) کوئی خیر اور بھلائی کا کام سرا نجام دے تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔
٭…یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
٭…یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔
٭… یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
٭… جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔
آپ ﷺ سے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:
’’یارسول اﷲ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا‘‘ (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو کھجور کے ایک دانے سے یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ یا دودھ کی تھوڑی سی لسی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے‘‘۔
٭… یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔
٭… جو شخص اس مہینہ میں ہلکا کر دے اپنے غلام(خادم) کے بوجھ کو حق تعالیٰ شانہ ٗ اس کی مغفرت فرماتے ہیں، اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں۔
٭…اس مہینے میں چار کام زیادہ کرو،جن میں سے دو چیزیں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہو سکتا، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمۂ طیبہ ادراستغفار کی کثرت ہے اور دوسری دوچیزیں جن کے بغیرتمہارا گزارا نہیں ہو سکتا، وہ یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو، اور آگ سے پناہ مانگو۔
٭… جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلاکر سیراب کر دے تو حق تعالیٰ ( قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ (الترغیب والترہیب ، للمنذری ۲؍۹۵۔مشکوٰۃ المصابیح )
گرمیوں کے ماہِ رمضان کے بارے میں کبھی شیطان دل میں وسوسے ڈالتا ہے کہ کاش یہ روزے سردیوں میں ہی آجاتے لیکن ایسے موقعے پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی کسان سخت دھوپ میں ، اپنے کھیت میں ہل چلا رہا ہو ، گرمی کے مارے اُس کے پسینے چھوٹ رہے ہوں اور کوئی شخص اُسے جا کر یوں کہے کہ بھائی! تم کس مشکل اور مشقت میں پڑے ہو ۔ چھوڑو یہ سب کچھ اور میرے ساتھ چلو ، میں تمہیں بہترین ٹھنڈے کمرے میں بٹھاتا ہوں ۔ ٹھنڈا پانی بھی پلائوں گا اور کھانا بھی کھلائوں گا ۔
وہ کسان اُس شخص کی بات ماننے کے بجائے اُسے اپنا دشمن سمجھے گا اور کبھی بھی اُس کی بات نہیں مانے گا بلکہ یوں کہے گا کہ مجھے تو اس کام میں مزہ آتا ہے ، اپنا تو کام ہی یہ ہے ۔ یہ گرمی اور پسینہ بھلا میرا کیا بگاڑ لیں گے ۔ کسان کا یہ جواب کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس کی نگاہوں میں چھ ماہ بعد اس کھیت پر لہلہانے والی فصل ہے اور اس کے دل میں اُس پیسے کی قدرو قیمت بیٹھی ہوئی ہے ‘ جو اسے اس مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ہے ۔
اس لیے اگر ہمارے دل و دماغ میں بھی وہ ارشادات ِ نبوت تازہ رہیں گے ، جن میں ہمارے پیارے آقا ﷺ نے رمضان کے فضائل بیان فرمائے ہیں تو ہمارے لیے گرمیوں کے طویل روزے ، پر سکون اور لمبی تروایح اور دن رات غلبۂ دین کی محنت کرنا نہ صرف آسان ہو جائے گا بلکہ ہمیں اس میں ایسا لطف اور مزہ آئے گا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے
ایک اللہ والے عالم حضرت اقدس مفتی جمیل احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم جیسے کمزور لوگوں کے شوق کو دوبالا کرنے اور ہمارے دلوں میں رمضان کے ایک ایک لمحے کی قدر وقیمت کا نقشہ اتنے پیارے انداز سے کھینچا ہے کہ کوئی مسلمان اس کا اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ مفت کے خزانے ‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا ہے:
٭ رمضان المبارک کا ایک ایک روزہ سال بھر کے تین سو چوّن مسلسل روزوں سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
٭ بلا عذر اگر اس کا ایک روزہ بھی نہ رکھا گیا تو عمر بھر کے روزے بھی اس کی جگہ کافی نہیں ہونگے۔
٭ رمضان میں ہر فرض کا ثواب ستر گنا، ہر نفل ، اعتکاف و ذکر اور ہرنیک کام کا ثواب ستر گنا ہو کر فرض کے برابر ہو جاتا ہے۔
٭ نماز کا ثواب گھر پر ایک کا ، مسجد میں پچیس کا ، جامع مسجد میں پچاس کا تھا، لیکن رمضان میں ستر گنا اور زائد ہو گا اس لئے رمضان میں گھر پر ستر ، مسجد میں سترہ سو پچاس ، جامع مسجد میں تین ہزار پانچ سو ہو جاتا ہے اور پانچوں نماز کا گھر پر 250 کا ، مسجد میں آٹھ ہزار سات سو پچاس کا اور جامع مسجد میں سترہ ہزار پانچ سو کا روزانہ ثواب ہو گا۔
٭ جماعت کا ستائیس گنا ، پنج وقتہ ایک سو پینتیس اور رمضان کا ستر گنا نو ہزار چار سو پچاس ثواب ہو گا۔
٭ قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں تو رمضان میں سات سو ہونگی قرآن کے کل حروف تین لاکھ تیس ہزار چھ سو اکہتر ، اس طرح پورے قرآن مجید کا ثواب رمضان میں بائیس کروڑ پینسٹھ لاکھ انہتر ہزار سات سو بنتا ہے۔ سننے والے کو بھی اتنا ہی ثواب اور جو سمجھ کر پڑھے یا سنے اسے اتنا ہی مزید ثواب اور جو پڑھے بھی ، خود سنے بھی اور سمجھے بھی اسے اس ثواب کا تین گنا یعنی سڑسٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ نو ہزار ایک سو ثواب ملئے گا ۔ اس کے علاوہ قرآن کو مس کرنا یعنی چھونا اور دیکھنا یہ بھی دس دس گنا زیادہ عبادات ہیں۔ اسی طرح پورا قرآن مجید پڑھنے پر تیرہ ارب انسٹھ کروڑ اکیس لاکھ بیاسی ہزار ثواب ہو گا۔
٭قرآن مجید پڑھنے کا یہ عظیم الشان ثواب شبینہ کی رات میں حاصل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کسی مکروہ یا خلاف شرع یا ریاء و نمود سے اس شبینہ کو ملوث نہ کیا جائے۔
٭بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم جو سب کو یاد ہے اس کے انیس حرف ہیں اور رمضان میں تیرہ ہزار تین سو نیکیاں صرف بسم اللہ کے پڑھنے پر ملیں گی اور جو جو سورتیں حفظ ہوں ، وضو یا بے وضو چلتے پھرتے ہر حرف پر اتنی ہی نیکیاں مفت ملیں گی۔
٭ ہر ادنیٰ سے ادنیٰ نیک کام کا ثواب ستر گنا ہے۔ خواہ راستہ سے کانٹا ہٹانا ہی ہو۔
٭ ایک بار درود شریف پر دس نیکیاں اوردس رحمتیں جو رمضان میں سات سو ہوتی ہیں ۔سب سے مختصر درودصلی اللّٰہ علیہ وسلمہے ، جو ایک منٹ میں سو بار ہو سکتا ہے اور جس کا ثواب رمضان میں ستر ہزار فی منٹ ہوا تو ڈیڑھ منٹ میں ایک لاکھ پانچ ہزار نیکیوں سے لکھ پتی ہو گئے۔
بقیہ صفحہ ۵ پر
٭ شب قدر ہزار ماہ یعنی تیس ہزار دن اور تیس ہزار رات کے برابر یعنی ساٹھ ہزار گنا ثواب ہے ۔ غروب شمس سے صبح صادق تک ہر منٹ کا ثواب ساٹھ ہزار منٹ کے برابر ہے ۔ ایک منٹ کا ضائع کرنا بھی کس قدر خسارہ کی بات ہے۔
٭نیکی کی ترغیب پر اتنا ہی ثواب ہے جتنا کرنے والے کو ہے اس لئے ہر وقت ہر نیک کام کی ترغیب دی جائے تا کہ ا سکے برابر ثواب ملتا رہے اور ہربرے کام سے روکنے کی تدبیر بھی تا کہ اس سے بچنے کے برابر بھی ثواب حاصل ہو۔
٭ اعتکاف پر انسان اور دوزخ کے درمیان تین خندق کا فاصلہ ہو جاتا ہے۔ مسجد میں قدم رکھتے ہی واپسی تک کے نفلی اعتکاف کی نیت سے مفت کا یہ ثواب حاصل ہو گا۔
٭ زکوٰۃ و عشر میں اور صدقہ و خیرات میں رمضان کی وجہ سے ستر گنا ثواب زائد ہو گا ۔ اللہ کی راہ میں دیئے ہوئے کا ثواب رمضان میں انچاس ہزار ہے۔
٭ ان سب کاموں میں ایصال ثواب کی بھی نیت کی جا سکتی ہے۔ خواہ مردہ کو خواہ زندہ کو خواہ ان لوگوں کو جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایصال ثواب میں سب مسلمانوں کی نیت کرنی چاہئے کیونکہ ثواب تقسیم نہیں ہو سکتا بلکہ پورے کا پورا ہر ایک کو ملتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ماہِ مبارک اپنی پوری برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ نصیب فرمائے اور امت ِ مسلمہ کو اس میں حقیقی خوشیاں عطا فرمائے (آمین ثم آمین)۔