ترتیب وترجمہ:ابومحمد الفاتح
رواں دنوں امریکی صدر اور نیٹو اتحاد کے بعض ارکان کی جانب سے کچھ ایسے بیانات سامنے آگئے جن سے دوحامعاہدہ پر کچھ منفی آثار نظر آرہے تھےـ اس کے ردعمل میں امارتِ اسلامیہ نے اپنا جامع اعلامیہ نشر کردیا ـاسی مناسبت سے سیاسی دفتر کے ترجمان جناب ڈاکٹر محمدنعیم صاحب نے ایک انٹرویو میں تفصیل کردی ہےـ اہمیت کے پیش نظر چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

امریکی صدر جوبائڈن کی باتیں ہم نے سنی ہیں اور اس پر ہم نے اپنا موقف بھی دے دیا ہےـ اس سے پہلے بھی بارہا ہم نے دوحامعاہدہ پر عمل درآمد کو ضروری قرار دیا ہے اور اپنی طرف سے مکمل اطمینان دے رکھا ہے بلکہ عملی طور پر ثابت کردکھایا ہے کہ ہم اس کے لیے سنجیدہ ہیں ـ ہم جانب ِ مقابل سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ عہد شکنی کی بجائے عہد کی پاسداری کرےـ

امریکی جانب سے جو یہ کہا جاتا ہے کہ فنی مسائل اور تکنیکی مشکلات کی وجہ سے ہم مقررہ مدت میں انخلاء کو مشکل سمجھتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہےـ ایک سال پہلے ہم نے دورانِ مذاکرات اٹھارہ ماہ یا اس سے بھی زیادہ کی مدت میں اس پر بحث کی ہے ـ ان ساری چیزوں کو ہم نے مد نظر رکھا ہےـ دونوں جانب سے تکنیکی ٹیموں نے اس پر طویل بحث کی ہےـ پھر طویل مباحثہ اور دقیق تحقیق وتفتیش کے بعد یہ مدت طے کی ہےـ چودہ ماہ کی یہ مدت اب فیصلہ شدہ ہے ـ اس پر باقاعدہ معاہدہ ہوا ہے اور فریقین نے اس پر دستخط کیا ہےـ اس لیے اب یہ کہنا کہ مشکل ہے اور فلاں فلاں مسائل ہیں بالکل بے معنی بات ہےـاور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگاـ

ہم نے ان مبہم بیانات کے متعلق اپنا بیانیہ اور اعلامیہ جاری کردیا ـ جس میں ہم نے بڑی وضاحت سے یہ بات کی ہے کہ عہد شکنی اور دوحا معاہدہ کے مندرجات ومشتملات سے انحراف جنگ کو طول دینے کے معنی میں ہوگا جس کا خمیازہ پھر بھگتنا ہوگاـ ایسی صورت میں پھر ہم مجبور ہونگے کہ اپنے ملک وملت کی سرحدات اور اپنے عقیدے کی حفاظت کریں اور جب تک ممکن ہو ہم اپنی مکمل آزادی اور حریت حاصل کرکے رہیں گےـ

ہمارا موقف بڑا صاف ہےـ ہم چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ باتوں اور مذاکرات سے حل کرلیا جائےـ لیکن اگر باتوں سے کوئی حل نہیں کرتا پھر تو ظاہر ہے کہ جنگ ہی ہوگی ـ اور اس جنگ کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوگی ـ کیونکہ ہم دفاعی حالت میں ہیں ـ آج تک ہماری حالت یہی دفاعی رہی ہےـ ہم اپنے ملک اور اپنی ملت کے دفاع کے مکلف ہیں ـ ہماری طرف سے تو کوئی تجاوز نہیں ہوا ہے نہ ہی ہم کسی مشکل کا سبب بنے ہیں ـ جانب مقابل ہی تو ہمارے ملک میں گھس آیا ہےـ جس کا نکالنا اور اپنا ملک بااختیار اور آزاد رکھنا ہمارا فرض ہے جسے پھر ہم نبھائیں گےـ

جو معاہدہ اس وقت آپ کے سامنے موجود ہے اس تک پہنچنے کے لئے اٹھارہ ماہ یا اس سے بھی زائد کاعرصہ مذاکرات میں لگا ہےـ اس کے لئے دوطرفہ طور پر ساتھیوں نے دن رات ایک کرکے محنت کی ہےـ شبانہ روز جدوجہد اور بے شمار مسائل ومشکلات کے باوجود یہ معاہدہ دستخط ہوا ہےـ جب اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا تو نئے سرے سے مذاکرات اور اس کے نتیجہ میں معاہدہ پر عمل درآمد کی کیا ضمانت ہوگی؟

میں عمومی طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی خارجی ملک اور قوت ہو اسے معاہدہ کی پاسداری کرلینی چاہیےـ مگر جو اس سے سرمو انحراف کرے گا تو اس صورت میں پھر خطرناک انجام کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگی ـ

معاہدہ میں ایک واضح بات یہ موجود تھی کہ جنگ کے تمام فریق اپنی اپنی طرف سے جنگ اور تشدد میں کمی لائیں گے ـ جس کی تفصیل امریکی جانب کے لیے یہ تھی کہ وہ بمباری نہیں کرےگاـ راتوں کو چھاپے نہیں مارے گا ـ البتہ ہماری طرف سے بلکہ ہمارے لئے ذمہ داری کاتعین نہیں کیا گیا تھا تو ہم نے اپنی طرف سے اس کی وضاحت ہر مشتمل ایک تجویز بنائی اور گزشتہ سال دسمبر کو امریکا کے حوالہ کردی ـ

دراصل یہ تجویز کسی نئی شرط اور نئی بات پر مشتمل نہیں ہےـ بلکہ معاہدہ کی عملی صورت پر مشتمل ایک تجویز ہے جس کی رو سے فریقین کے لئے معاہدہ پر عمل درآمد آسان ہوجاتا ہےـ

ترکی میں جو کانفرنس منعقد ہورہی ہے اس کے ئے باقاعدہ ہم سے رابطہ ہورہا ہے اور ہمیں اعتماد میں لیا گیا ہےـ البتہ یہ سوال کہ اس میں کون شرکت کرے گا تو اس بارے میں یہ سمجھنا چاہیے کہ امارتِ اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم موجود ہےـ سیاسی دفتر اسی لئے تشکیل پایا ہے ـ اور اس میں امیرالمؤمنین کے معتمدخاص ملابرادر اخند موجود ہیں ـ وہی فیصلہ کریں گے کہ کس نے شرکت کرنی ہے اور کس کو بھیجنا ہےـ

موسم بہار کے وقت ہم جس آپریشن کا اعلان کرتے ہیں اس حوالہ سے ہم حالات کا جائزہ لے رہے ہیں ـ اگر حالات مناسب رہے تو شاید اعلان نہ ہوجائے اور اگر حالات کا پلٹا دوسری طرف رہا تو پھر مجبور ہونگے اور اعلان کریں گےـ

اشرف غنی جو تجویز انتخابات کی پیش کررہاہے اس کی تفصیلات کا تو علم نہیں ہےـ البتہ ماہرین اور مبصرین کے ساتھ نشستوں اور مشوروں میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ انتخابات کے نام پر جو کچھ منصوبہ ہے وہ چلنے والا نہیں ہےـ کیونکہ گزشتہ بیس سال میں انتخابات کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ دھوکہ، فریب اور فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں ـ جس میں رائے کے احترام کی بجائے دھول جھونکنے کی زیادہ کوشش کی گئی ـ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے