ان دنوں افغان تنازع کے پرامن حل کے لئے مختلف منصوبے اور تجاویز پیش کرنے کا معاملہ زوروں پر ہے، دوحہ معاہدے کے مطابق قابض افواج کے انخلا کی تاریخ بھی قریب آگئی ہے، اور بین الافغانی حل کے لئے ماحول سازگار ہے، سیاسی زعماء افغان تنازع کے سیاسی تصفیہ کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ مختلف ادارے اور شخصیات افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس پر اپنے خیالات اور تجاویز پیش کرتے ہیں لیکن ایک نکتہ جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ منصوبے افغانستان اور افغان عوام کی مذہبی ، تاریخی ، ثقافتی اور معاشرتی حقائق کے مطابق بنائے جائیں تب ممد ثابت ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں افغانستان میں مختلف حکمت عملی اور سیاسی یا فوجی منصوبے ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ وہ ہمارے لوگوں کی امنگوں کے خلاف تھے، مشرقی اور مغربی استعماری قوتوں کی جانب سے ہمارے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے ایسے نسخے تیار کئے جاتے تھے جو غیرملکی اقدار اور معیارات پر مبنی تھے، اسی وجہ سے یہ منصوبے اگرچہ کاغذ پر بہت خوبصورت لگتے تھے اور میڈیا کی کوریج بھی دلچسپ ہوتی تھی لیکن وہ ہمارے ملک کی معروضی حالات اور حقائق کی وجہ سے عملی مرحلے میں ناکام اور غیر موثر ثابت ہوئے۔
وہ بنیادی نکات جو افغانستان کے بارے میں کسی بھی حکمت عملی اور منصوبہ میں شامل کرنا ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ افغانستان ایک اسلامی ملک ہے، اس کی آبادی 100٪ مسلمان ہے، نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی اور حقیقی طور پر مسلمان ہے، انہوں نے اسلام کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں، گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اسلام اور آزادی کے لئے لاکھوں افراد کی قربانی دی ہے، آئندہ افغانستان کے بارے میں جو منصوبے بنائے جاتے ہیں ان میں افغان عوام کے مقدس مذہبی اقدار اور چار دہائیوں کی قربانیوں کے ثمرات کو محفوظ رکھنا چاہئے، اس کے علاوہ اس قوم کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
افغان عوام پوری آزادی، ملکی سالمیت اور خودمختاری کی بحالی چاہتے ہیں، آئندہ کا نظام ، سیاست ، معاشیات ، ثقافت اور تعلیم سے لے کر نشریات اور سماجی سرگرمیوں تک تمام چیزوں کو ہماری قوم کی مذہبی اقدار کے مطابق ہونا چاہئے، ہماری قوم صرف فوجی جارحیت کا خاتمہ نہیں چاہتی بلکہ سیاسی ، ثقافتی اور فکری جارحیت کا خاتمہ بھی چاہتی ہے۔
لہذا افغانستان کے سیاسی زعماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات اس طریقہ سے حل کریں جو افغان عوام کی امنگوں اور اعتماد کے مطابق ہو، اگر خدا نخواستہ اجنبی منصوبوں اور پالیسیوں کو مسلط کرنے کے پرانے تجربات دہرائے جاتے ہیں تو دنیا اور آخرت کی ذمہ داری بہت بھاری ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے