ترتیب وترجمہ:ابومحمد الفاتح
روس میں افغان امن کے قیام کے حوالہ سے جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں طے ہوا تھا کہ آئندہ اسی طرز کی ایک اور کانفرنس ترکی میں منعقد کی جائے گی ـ یہ کانفرنس کب منعقد ہوگی؟ اس کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ امارتِ اسلامیہ اس میں کیا مطالبات پیش کرے گی؟ اس بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش کررہی تھیں ـ امارتِ اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان جناب ڈاکٹر محمدنعیم صاحب نے اس بارے میں اصل حقائق بیان کئے ہیں ـ جن کے چند نکات پیش خدمت ہیں

امارتِ اسلامیہ روزِ اول سے افغانستان کے مسئلہ کاسنجیدہ حل چاہتی ہےـ اسی کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہےـ اور اسی کے لئے عزمِ مصمم اور یقینِ صادق رکھتی ہےـ ترکی میں ہونے والی کانفرنس سے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تاحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس معلومات اور جزئیات کی تفصیل میسر نہیں ہوسکی ہےـ البتہ ہمیں وہاں آنے اور اس میں شرکت کرنے کی دعوت ضرور ملی ہےـ ترکی کا ایک وفد ہمارے ہاں آیا تھا ـ ان کے ساتھ ہماری نشست ہوئی تھی اور انہوں نے ہمیں اس کانفرنس کے حوالہ سے معلومات بھی دی تھی ـ انہیں معلومات کی بنیاد پر ہم آپس میں مشاورت کررہے ہیں اور مشاورت کے بعد اپنے موقف سے آگاہ کرلیں گےـ

ترکی وفد نے ہمیں جو معلومات دی ہے اس میں یہ بات شامل ہے کہ کون کون اس کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں اور کب یہ کانفرنس منعقد ہونے جارہی ہےـ ساتھ ہی شرکاء کانفرنس کے لئے کیا لائحہ عمل ہے وہ بھی بتایا گیا ہےـ

یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم نے ماہِ رمضان کے بعد کانفرنس رکھنے کی درخواست کی ہے تو اس بارے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے آنے والے وفد سے جو معلومات حاصل کی ہے اس پر ہمارے درمیان مشاورت چل رہی ہے اور جب مشاورت مکمل ہوجائے گی پھر ہم اپنا موقف بتائیں گےـ

لوگ سوال کرتے ہیں کہ ترکی میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا ایجنڈا کیا ہے؟ تو جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ابھی تک ہمیں کچھ معلومات ملی ہیں ـ ان کی بنیاد پر ہم اپنی تیاری کررہے ہیں ـ کہ وہاں کونسی چیز زیربحث لانی چاہیے اور کونسی نہیں ـ

ترک کانفرنس کے لئے ہماری طرف سے کوئی خصوصی مطالبہ نہیں ہےـ البتہ جس طرح ہم عمومی طور پر کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے رواں جہاد کے دو بنیادی مقاصد ہیں ـ ایک یہ کہ ہمارا ملک آزاد اور خود مختار ہوجائےـ تمام بیرونی قوتیں یہاں سے چلی جائیں ـ یہی بات دوحا معاہدہ میں بھی موجود ہے جس پر دستخط بھی ہوچکے ہیں اور عالمی پذیرائی بھی مل چکی ہےـ دوسرا بنیادی مقصد جو کہ پوری ملت کی آرزو ہے وہ یہ کہ ایک مستقل اسلامی نظام ملک میں قائم ہوجائےـ ایک ایسا نظام جو دینِ اسلام کی مقدس بنیادوں پر استوار ہوـ اور ملک کے علیا منافع اور ملت کے مفادات پر مشتمل ہوـ یہ دو نکتے ہم پیش کرنا چاہیں گےـ

عبوری حکومت کے بارے میں یہ تو پتہ نہیں کہ اس پر ترک کانفرنس میں بحث ہوگی یا نہیں؟ البتہ ہمارا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا دائمی حل نکالنا چاہیےـ گزشتہ بیس سال سے ہمیں تجربہ رہا ہے کہ یہاں عبوری اور مخلوط سب قسم کی حکومتیں بنائی گئیں مگر ان سے ملک کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہےـ بلکہ مشکل میں مزید اضافہ کرگئی ہیں ـ

ہم کسی کی موافقت اور مخالفت کے پابند نہیں ہیں ـ ہم اپنی پالیسی رکھتے ہیں ـ اپنے ہاں اہل الحل والعقد لوگ رکھتے ہیں ـ ہمارے درمیان صاحب رائے لوگ موجود ہیں ـ ہر مسئلہ پر مشاورت ہوتی ہے اور طویل مشاورت کے بعد جا کر موقف سامنے آتا ہےـ

یہ جو کہا جاتا ہے کہ چھ ماہ میں نئے انتخابات کروائے جائیں ـ متخصصین اور ماہرین کے ہاں یہ ٹھیک نہیں ہےـ بلکہ یہ بات مسترد کی جاچکی ہےـ پھر گزشتہ پندرہ سال سے انتخابات کی جو درگت بنائی گئی ہے اس کی وجہ سے قوم کا انتخابات پر سے اعتماد اٹھ گیا ہےـ لوگ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ طالبان انتخابات سے جی چراتے ہیں کہ وہ لوگوں میں محبوبیت نہیں رکھتےـ تو کیا جن بنیادوں پر گزشتہ سارے انتخابات ہوئے ہیں یہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے؟ اور کیا یہ ملت کی نمائندگی کہلائی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس سے افغانستان کا مسئلہ کسی بھی سطح پر حل ہوا ہے؟ اگر ہمیں چند افراد اور اشخاص کے ذاتی مفادات کی فکر ہوتی تب تو کوئی بات بنتی تھی ـ لیکن ہمیں تو قوم اور ملک کی فکر ہے اور اس میں یہ بات نہیں چل سکتی ـ

بعض لوگ بظاہر کچھ کہتے ہیں اور پس پردہ ان کے عزائم کچھ اور ہوتے ہیں ـ ہم اس طرز عمل کے لوگ نہیں ہیں ـ ہمیں قوم اور ملت کی فکر ہےـ ہم دوغلا پن کے روادار نہیں ہیں ـ اس لیے سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور ملک وملت کے منافع کو سامنے رکھ کر موقف دیتے ہیں ـ اس بنیاد پر کچھ لوگ باہر سے نظام لا کر ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ـ لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ دینِ اسلام میں طرز حکومت کے اپنے واضح اصول ہیں ـ مذاکراتی میز پر جب دین ومذہب کے ماہرین بیٹھیں گے تو وہ خود ہی طرزِ حکمرانی کا تعین کریں گے اور دینِ اسلام کے واضح اصولوں پر نظام قائم کریں گے ـ یہ نہیں ہوگا کہ آج ایک طرف ذاتی مفاد نظر آرہا ہے تو اس طرف جھکاو ہے اور کل کسی اور جانب نظر آیا تو اس طرف میلان ہوـ

ترک کانفرنس کی تاریخ کا آنے والے وفد نے بتایا تو تھا مگر ابھی تک اس پر اتفاق نہیں ہوسکا ہےـ

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے