تحریر: ارمان
امریکا میں ٹرمپ کی شکست کے بعد ڈیموکریٹ جماعت کے “جوبائڈن” نئی امریکی صدر منتخب ہوگیا اور حلف لیا-جوبائڈن کے صدر بننے کے بعد دوسروں کے ساتھ کابل انتظامیہ نے بھی امیدیں وابستہ کی کہ اب کے تو امریکا اور امارتِ اسلامیہ کے درمیان کیا گیا معاہدہ دم توڑدے گا اور نئی امریکی صدر اسے لغو اعلان کرے گا-بالفاظِ دیگر کابل انتظامیہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ امریکا افغانستان کے اندر اپنی جارحیت کو مزید طول دینے کے لیے اپنی غاصب فوج کو یہیں پر برقرار رکھے گا جس کے ساتھ ہی کابل انتظامیہ کے کاسہ لیس غلاموں کو افغان عوام کے خون چوسنے کے مزید مواقع ملیں گے-
بلاشبہ بائڈین اور اس کی نئی انتظامیہ اس اختیار کے مالک ہیں کہ اپنی گزشتہ حکومت کے خدوخال کو سمجھنے کی کوشش کریں! اس کے کیے دھرے پر نئی سرے سے غور کرکےاس کے بارے میں نئی تجاویز اور نئی فیصلے کرلے-مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اور امریکا کے نئی صدر اور اس کی انتظامیہ کو اس کا ادراک بھی ضرور ہوگا کہ افغانستان میں ان کے تمام حربے آزمانے کے بعد ان کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں-جس کے بعد خود اسی ڈیموکریٹ جماعت کے سابقہ صدر بارک اوباما نے امارتِ اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات شروع کردئیے-جو چلتے چلتے ٹرمپ کے دور میں اٹھارہ ماہ کی طویل ترین مدت کے بعد امریکا اور امارتِ اسلامیہ کے درمیان ایک تاریخ ساز اور جارحیت کے خاتمہ کے معاہدہ دستخط کرنے پر منتج ہوئے-
پھر سیاسی مبصرین اور ماہرین کی نظر میں امریکا کو کسی نہ کسی دن افغانستان سے انخلاء کرنا ہوگا-اور جارحیت کو ختم کرنا ہوگا-کیونکہ کوئی بھی جنگ کسی لامحدود مدت اورزمانہ تک چل نہیں سکتی-نہ کوئی ملک کسی لمبی مدت تک دوسرے ملک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرسکتا ہے-
پھر وہ دوسرا ملک بھی افغانستان جیسا ملک ہو جہاں استعمار کے پرخچے ایک نہیں بار بار اڑائے گئے ہیں-غاصب قوتوں کو یہاں ناکوں چنے چھبوائے گئے ہیں-جن کی خواہش تھی کہ افغانوں کو اپنا غلام بناسکے انہیں افغان عوام نے اپنی کوپڑیوں میں پانی پلادئیے ہیں اور عبرت کا وہ درس دے رکھا ہے جسے ان کی نسلیں یاد رکھیں گی-خود امریکا نے یہاں جو زور آزمائی کی اور دنیا بھر کے تمام وسائل استعمال کرلیے مگر نتیجہ یہ رہا کہ اس کو منہ کی کھانی پڑی-شکست کی وہ تاریخ رقم ہوگئی کہ جب بھی کوئی امریکی باشندہ افغانستان کا تصور کرے گا تو اس کا ذھن ایک ڈراونا خواب محسوس کرے گا-
اس لیے امریکا کی نئی حکومت اور صدر بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچ لے-افغانستان کی تاریخ نئی سرے سے پڑھ لے-یہاں کے بہادروں اور شیردل سپاہیوں کے گزشتہ اور حالیہ واقعات پر غور کرلے-بالخصوص گزشتہ بیس سالوں کو پرکھ کر حالات کا جائزہ لے-کہ اتنی لمبی مدت میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ظاہر ہے کہ ہاتھ آیا تو کچھ نہیں اور جو کھویا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے جس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ 2001 کا امریکا آج نہیں رہاہے-اس کی قوت پارہ پارہ ہوچکی ہے-غرور اور تکبر خاک میں مل گیا ہے-معیشت کو ڈوبنے کا سامنا ہے-عالمی سطح پر اس کی حیثیت اور موقف شدید متاثر ہوچکے ہیں-ساکھ کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے-ایسے میں اگر امریکا حماقت سے کام لے کر جنگ کو طول دینے کا فیصلہ کرتاہے تو یہ امریکا کی غلطیوں اور غلط فیصلوں میں ایک اور اضافہ ہوگا-جس کے ساتھ امریکا کا دوغلا پن دنیا کے سامنے آشکارا ہوجائےگا-امریکا کی ساکھ مزید گرجائے گی-حیثیت میں بے پناہ کمزوری آجائے گی-مالیت اور ہتھیاروں کی بہت بڑی مقدار جنگ کی خوراک ہوجائے گی اور اس کے ہزاروں سپاہی اس جنگ میں لقمہِ اجل بنیں گے جس کے بعد امریکا کو ذلت اور شرمندگی کے ساتھ افغانستان سے انخلاء کرنا ہوگا-اور راہِ فرار کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا-
اس لیے!بجائے اس کے کہ کل کو امریکا ویٹنام سے نکلنے کی طرح شرمندگی اور خجالت کے ساتھ راہِ فرار کو اختیار کرے مناسب یہ ہے کہ آج دوحا معاہدہ سے استفادہ کرکے بھرپور احترام کے ساتھ اور کسی پریشانی کے بغیر اپنا لاو لشکر نکال دے-اپنے پیشرو ٹرمپ کی پالیسی پر چل کر ہر طرح کی نئی سیاست اور حماقت آمیز پالیسی کی جسارت سے گریز کرے-