تحریر:سید عبدالرزاق
نومبر۳۰ کو چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ٹویٹر پر ایک تصویر شائع کی گئی جس میں افغانستان کے اندر ایک چھوٹی بچی بکری کا بچا گود میں لیے آرہی ہے اور آسٹریلیا کا ایک فوجی چھرا ہاتھ میں لیے اس بچی کا سر کاٹتا دکھائی دے رہا ہے-اس ٹویٹ میں اس بھیانک، خونخوار، دردناک، کربناک اور المناک تصویر کے نیچے یہ جملہ بھی درج ہے کہ ہم امن کے لیے آرہے ہیں
اس تصویر پر آسٹریلیا کی وزارتِ خارجہ نے ردعمل دیا اور چینی وزارتِ خارجہ سے تصویر ہٹانے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا-ساتھ ہی ٹویٹر سے بھی اس تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا -مگر چینی وزارتِ خارجہ نے بجائے معافی مانگنے کے انہیں موردِ الزام ٹھرایا اور اپنے ایک بیان میں کہا کہ معافی آسٹریلیا کو مانگنی چاہیے اور ان افغانوں سے مانگنی چاہیے جن کے ساتھ وحشت وظلم کی یہ انتہاء کرڈالی ہے-اور افغان شہریوں کی زندگیاں لوٹ ڈالی ہے
دونوں ملکوں کے اس طرز پر سوشل میڈیا میں ایک ہنگامہ کھڑاہوا اور دونوں جانب مخالفیں اور حمایتیوں کی لفظی گولہ باری شروع ہوئی اور تناو مزید گہرا ہوتا چلا گیا-جس پر کابل انتظامیہ کاوزیرِ خارجہ حنیف اتمر سامنے آیا اور ایک بیان جاری کردیا کہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں پر چین اور آسٹریلیا کو اپنے تعلقات میں کشیدگی نہیں لانی چاہیے -یہ سب کچھ ہمارے علم میں ہیں اور ہم اس کی تحقیقات کررہے ہیں
اس تصویر کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ مہینے اکتوبر کے آخیر میں کچھ فوٹیجز وائرل ہوئی تھی جن میں آسٹریلوی افواج کے مظالم اور عام شہریوں پر بہیمانہ تشدد کو دکھایا گیا تھا-یاد رہے کہ ویڈیوز اور تصاویر بھی خود انہیں افواج میں سے بعض نے تیار کررکھی تھیں اور پھر سوشل میڈیا پر نشر کی تھیں-ان فوٹیجز کے سامنے آنے کے بعد آسٹریلیا نے ایک کمیشن بنایا جس کا باقاعدہ سربراہ متعین کیا گیا تاکہ معاملہ کی تحقیقات کرے -لیکن چند روز آسٹریلیا کا وزیرِ دفاع میڈیا پر نمودار ہوا اور چند رسمی الفاظ سے معافی مانگی اور یوں اس معاملہ کو دبانے کی کوشش کی-مجرموں کا تعین اور پھر کیفرِ کردار تک پہنچانے کی بجائے یہ خبر بریک ہوئی کہ آسٹریلیا کی فوج میں سے جس بندے نے یہ تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر لانے کی حماقت کی ہے اسے جلد ازجلد سخت سے سخت تر سزا ہوگی
اس بنیاد پر بعض ممالک نے یہ مسئلہ اٹھایا اور دہشت گردی اور غنڈہ گردی کی اس کربناک واردات پر آواز بلند کی -جن میں ۳۰ نومبر کی چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس تصویر کی اشاعت بھی شامل ہے-اس معاملہ کے منظرِعام پر آنے کے فورا بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کابل انتظامیہ آسٹریلیا سے تحقیقات کا مطالبہ کرتی -اس کے سامنے احتجاج کرتی اور جس طرح سے بین الاقوامی اصول ہیں اس طرح سے سفارتی تعلقات میں کوئی تبدیلی لاتی اور جن شہریوں کی نمائندگی کا انہیں دعوی ہے ان کے دفاع کے لیے کوئی مؤثر اقدام اٹھاتی مگر بے حسی کی مثال قائم کرتے ہوئے کابل انتظامیہ نے کوئی دوچار رسمی سے مذمتی الفاظ تک منہ پر نہیں لائے
پھر جب عالمی سطح پر یہ معاملہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اٹھایا جانے لگا اور چین نے اس وحشیانہ طرز عمل کی مثال دی تو کابل انتظامیہ بجائے اس کے کہ اس اقدام کا خیرمقدم کرتی اور اس بنیاد پر اس معاملہ کو اقوامِ متحدہ میں اٹھاتی الٹا ان کو تلقین کراتے نظر آئی-اور تناو سے بچنے کی بات دہراتی رہی
اس موقع پر حنیف اتمر کی یہ بات اگرچہ دیکھنے میں ایک عام سی بات لگتی ہے مگر درحقیقت اس سے حنیف اتمر اپنی اور کابل انتظامیہ کی حقیقت بتارہا ہے-کیونکہ یہ بات انتظامیہ کاسربراہ اشرف غنی کئی دفعہ دہراچکا ہے کہ ہم واشنٹن اور نیویارک کے دفاع کے لیے لڑرہے ہیں-جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اپنے شہریوں پر بے دریغ حملے،چھاپے اور بمباریاں محض ان کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں -یہی وجہ ہے کہ ملک میں کتنا ہی اندوہناک واقعہ ہوجائے اور کتنی ہی وحشت کی انتہاءہو انتظامیہ کے کانوں پر جوں کاتوں نہیں رینگتی اور وہ بڑی ڈھٹائی سے اس پر ایک جملہ کہہ دیتی ہے کہ دہشت گردوں کو ماراگیا ہے-ایٹم بم کے بعد سب سے بڑا بم “بموں کی ماں”کو جب آزمایا گیا اور اس میں پورا علاقہ شدید متاثر ہوا اس وقت یہی انتظامیہ دھڑلے سی کہتی رہی کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا مگر آج تک کوئی ایک ٹھکانہ ثابت نہ کرسکی البتہ عام شہریوں کی جانی ومالی نقصانات اس قدر ثابت ہوئیں جن کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا
بے حس انتظامیہ اور اس جا بے حس وزیر کس قدر بے شرمی سے کہتا ہے کہ افغان شہریوں کی ہلاکت پر ان ممالک کو اپنے تعلقات میں کشیدگی سے گریز کرنا چاہیے-کیا مطلب؟ یعنی یہ اتنا بڑاایشو نہیں ہے جس پر کسی بڑے ملک کو ایکشن لینا پڑے-مطلب یہ کہ افغان شہری کوئی اتنی حیثیت نہیں رکھتے جن کے قتل کا معاملہ بین الاقوامی فورم پر اٹھایا جائے
یہ ان لوگوں کی اصلیت ہے اور ملک وقوم کے ساتھ ہمدردی کی یہ حالت ہے-بے حسی اور بے شرمی کی انتہاء ہے اور پھر بھی وہ قوم کی نمائندگی کا دعوی رکھتے ہیں
بشکریہ الامارہ ویب سائٹ