تحریر: ذبیح اللہ مجاہد ۔ ترجمان امارت اسلامیہ

یہ دنیا جائے بقا نہیں۔ دنیا میں ہمارے لانے جانے کا مقصد ہماری آزمائش ہے۔انسان کے لیے رہنے کی ابدی جگہ آخرت ہے۔ وہی دارالبقا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی رنگینیوں میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ اس حقیر دنیا کو  ہی اپنا اصل ٹھکانہ سمجھ کر آخرت سے بے فکر ہو جاتے ہیں۔ نتیجۃً وہ برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تصور انسان کی ایک بڑی بھول اور غلطی ہے۔ اس امتحانی  مرحلے  میں وہی شخص کامیاب ہے، جس نے اللہ تعالی کے دیے ہوئے دستور پر عمل کیا ہو۔  چوں کہ عمل  کی بات کہنے کی حد تک بہت آسان ہے۔ اسے عملاً ثابت کرنے کے لیے استقامت اور قوت ایمانی  کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن لوگوں پر اللہ رب العزت کا خصوصی کرم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی بھلائیوں میں ان کا حصہ رکھا ہو۔جنت کے اعلی ٰ مقامات ان کے لیے آراستہ کیے ہوں  ، وہ   لوگ بہت ہی آسانی سے ان امتحانی مراحل سے سرخ رُو اور کامیاب ہوکر نکل جاتے ہیں۔

ان کے لیے دین پر عمل، دین کے لیے ایثار و قربانی، دین کی راہ میں تکالیف  اور عبادات  سے لطف اندوز ہونے کا مرحلہ دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے گویا دین پر عمل کرنا ان کی فطرت میں شامل ہے۔ جب ہم اس قسم کی برگزیدہ ہستیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارا ایمان ہم سے یہی تقاضا کرتیا ہے کہ ان سے محبت کی جائے۔ ان کے ساتھ اخلاص سے پیش آیا جائے۔ان کا ساتھی بنا جائے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو آگے بڑھانے پر فخر محسوس کریں۔ دو عالمی قوتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے والے  بے مثال جہادی قائد حقانی صاحب رحمہ اللہ  بھی انہی برگزیدہ ہستیوں میں تھے۔ جب بھی کسی مجلس میں ان کاذکر  ہوتا  تو میری خواہش ہوتی کہ بار بار ان کا  نام لیا جائے۔ یہی ان کی عظمت، اخلاص اور قربانی کا نتیجہ تھا کہ آ ج ہم ان کے نام پر دنیائے کفر کے سامنے فخر محسوس کرتے ہیں۔

کئی عشرے پہلے کی بات ہے، جب میں نے پہلی مرتبہ ریڈیو کے ایک کمیونسٹ چینل سے حقانی صاحب کے بارے منفی رپورٹ سنی ، تب میں کمسن تھا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ اس شخص کے بارے ضرور معلومات حاصل کرنی چاہییں، جس کے خلاف کمیونسٹ میڈیا ہر وقت زہر اگلتا رہتا ہے۔ جب کمیونسٹ دور ختم ہوا۔ اسلامی انقلاب کا ظہور ہوا تو حقانی صاحب ہجرت کی زندگی ترک کرکے وطن واپس تشریف لے آئے۔ آپ  اپنے قول وعمل  اور ظاہری لباس اور وضع قطع سے  بالکل  ایک منفرد شخصیت کے  مالک تھے۔ آپ کی جو تصویر کمیونسٹ  اور شیطان صفت میڈیا نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی، آپ اس سے بالکل مختلف  تھے۔ الحاج حقانی صاحب ایک خدا ترس ، مخلص اور درویش صفت انسان تھے۔ انہیں اپنے اصلی ہدف کا اچھی طرح علم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ  وہ جہاد کی راہ میں کسی ملامت  کی پروہ نہیں کرتے تھے۔ وہ نام و نمود کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی تمام تکالیف خندہ پیشانی سے  برداشت کرتے۔ میں اپنی ایمانی  قوت کے  ذریعے  حقانی صاحب کے مقصد اور مشن سے آگاہ ہوں۔ ان کا مقصد اور مشن صرف اللہ کی رضا اور اعلائے کلمۃ اللہ تھا۔

آپ بچپن میں یتیم ہوگئے تھے۔ اس کے باوجود حصول علم کی راہ نہیں چھوڑی۔ فراغت کے بعد گھر جانے کے بجائے جہادی محاذ پر پہنچ گئے۔انہوں نے ایک عام مجاہد سے لے کر جہادی رہنما بننے تک وہ حالات جھیلے، جنہیں سن کر ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ زندگی کی آخری سانس تک امارت اسلامیہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ آپ کے ہزاروں ساتھی اب بھی  افغانستان  کے طول و عرض میں دنیائے کفر  اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔   آپ  نے درسِ نظامی کا آغاز صوبہ غزنی  کے ضلع شلگر میں واقع روحانی مرکز نورالمدارس سے کیا۔ جب کہ دورہ حدیث کے لیے پشاور کے  نواح میں واقع دارالعلوم حقانیہ کا انتخاب کیا۔ دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد آپ پکتیا کے ضلع زرمت تشریف لائے۔ یہاں سے  ظلم و جبر کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ جب سوویت یونین کے خلاف پورے چودہ سال کے  تاریخی معرکے کے بعد  اس عظیم سپاہی نے اپنا آرام و سکون قربان کیے رکھا۔ جب ہزاروں شہداء کی قربانیوں کے بعد جب روس افغانستان سے شکست کھا کر نکلا تو ان کی امیدوں  کا مینار کابل  ایک بار پھر آگ و خون کا مرکز ب گیا۔ تب کابل  مختلف جنگجو گروہوں کے درمیان میدانِ کارزار  بن گیا۔ مخلص مجاہدین اس صورت حال سے مایوس ہو کر گوشہ نشین ہوگئے۔ جب کہ دوسری جانب اقتدار کے نشے میں چور نام نہاد مجاہدین کابل کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف تھے۔ لوگوں کی عزتیں نیلام ہوئیں اور ہرطرف لوٹ  مار کا بازار گرم تھا۔

حقانی صاحب  نے مجاہدین کے ان گروہوں کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں کیں۔ انہیں سمجھایا کہ ہم خانہ جنگی سے جہاد کے ثمرات  کھو دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ باہمی جنگوں میں ملوث افغان عوام کو صلح پر راضی کر کے  خانہ جنگی کا خاتمہ کیا جائے۔ جب حالات بالکل کنٹرول سے باہر ہوئے تو آپ اپنے آبائی علاقے تشریف لائے اور  قبائلی جرگوں کے ذریعے کئی قبائل کے درمیان صلح کرائی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے  آبائی علاقے میں ’دائرۃ المعارف‘ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیا د رکھی۔  اس طرح صوبہ خوست میں متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ’شیخ زید یونی ورسٹی‘ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ  اپنے تباہ شدہ وطن کی آبادی اور ترقی کے لیے عصری علوم کے اداروں کا قیام بھی ضروری  سمجھتے تھے۔ جب طالبان تحریک سامنے آئی تو حقانی صاحب کو  تو جیسے اسی کا انتظار تھا۔ وہ اتنے خوش ہوئے، جیسے انہیں گمشدہ متاع مل گئی ہو۔ اس وقت انہوں نے اپنے سے کم عمر  مجاہد ، دین اور وطن کا درد رکھنے والے ملا محمد عمر مجاہد کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کی مکمل اطاعت کا اعلان کیا۔ ان کے اس اعلان کے ساتھ وسیع علاقے فتح ہوئے۔طالبان نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے بالآخر کابل فتح کیا۔ اس مرتبہ مختلف تنظیموں کے بجائے کابل میں امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ یہی وہ نظام تھا، جس کے لیے حقانی صاحب نے پورے چودہ سال مختلف تکالیف اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ حقانی صاحب نے کبھی یہ نہیں سوچا  کہ طالبان کے ساتھ بیعت سے پہلے  وہ ایک نامور کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔گاڑیوں،ٹینکوں اور اسلحے کی بہتات تھی۔ ان کو فاتحِ خوست کا لقب  دیا گیا تھا ۔ طالبان کے ساتھ بیعت پر ان کی حیثیت کیا ہوگی؟! انہوں نے ان تمام خدشات کو پس پشت ڈالا اور اپنی بیعت پر زندگی کی آخری سانس  تک ڈٹے رہے۔ نام و نمود کی طلب ہی وہ مرض تھا، جس نے کئی نام نہاد مجاہدین کو راہِ حق سے ہٹایا اور وہ آج بھی دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

حقانی صاحب کی دوسری آزمائش  تب شروع ہوئی، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اب ایک بار پھر وہی پہاڑ اور وہی جہادی محاذ حقانی صاحب کے منتظر   تھے۔ ماضی کی نسبت بڑھتی عمر اور جہاد کی پرانی مشقتوں  اور تکالیف کے باوجود بھرپور جذبے سے اپنی جہادی صف کو منظم کرکے عالمی کفار کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ اس سے قبل دنیا انہیں ایک عظیم مجاہد کے نام سے جانتی تھی۔دنیا ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے نہیں تھکتی تھی ۔ جب انہوں نے امریکی جارحیت کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا تو انہیں  عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا۔ گویا کہ  قلم ایک بار پھر دشمن کے ہاتھوں میں چلا گیا۔

حقانی صاحب کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ تھا۔دنیا کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی اولاد،خاندان اور اپنے تمام متعلقین کو بھرپور قوت سے امریکا کے خلاف جہاد کے میدان کی طرف دعوت دی۔ انہیں تشویش تھی کہ کہیں ایسانہ ہو ان کے پرانے ساتھی یا تحریک کے نئے ساتھیوں کو کوئی ورغلا کر جہاد سے دور لے جائے۔ جب 2001ء میں امریکا  نے افغانستان پر جارحیت کی تو آپ امریکا کی لسٹ میں سرفہرست تھے۔ ہر جگہ امریکی طیارے آپ کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے رہے۔ حتی کہ ایک فضائی حملے کے نتیجے میں آپ  شدید زخمی ہوگئے۔ درہ شاہی کوٹ میں امریکی فوج کو دن میں تارے دکھانے والے عظیم مجاہد ملا سیف الرحمن منصور رحمہ اللہ نے اپنے نائب شہید مولوی فدا محمد جواد کو حقانی صاحب کی عیادت کے لیے بھیج دیا۔ شہید جواد صاحب کو عیادت کے موقع پر  حقانی صاحب نے شہید مولوی سیف الرحمن منصور کے نام پیغام بھیجتے ہوئے کہا کہ ’ منصور صاحب کو میرا سلام  کہنا۔ ان سے کہنا کہ کفار کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ درہ شاہی کوٹ  سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹنا ۔ صحت یابی کے بعد میں بھی آپ کے ہم رکاب ہوں گا۔ اس لیے مایوس بالکل نہیں ہونا۔‘

سوویت یونین کے خلاف جہاد میں ان کا ایک بھائی شہید ہواتھا۔آپ کے پورے خاندان  نے بہت  زیادہ مشقتیں برداشت کی تھیں۔ابھی گزشتہ جنگ کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے  کہ انہیں اس ضعیف العمری میں یکے بعد دیگرے اپنے چار جگر گوشوں  سمیت خاندان کے درجنوں افراد کی شہادت کے زخم بھی سہنا پڑے۔ حقانی صاحب نے کئی  ساتھیوں کی جہادی تربیت کی۔ انہوں نے جارحیت پسند امریکا اور اس کے حواریوں کے غرور کو خاک میں ملا یا۔ امریکی اتنے  گھبرا گئے کہ اب انخلا اور فرار کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے طالبان  کے ساتھ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ حقانی صاحب امارت اسلامیہ کے وہ سپہ سالا ثابت ہوئے ، جن پر راہ حق کا ہر مجاہد فخر کر سکتا ہے۔  الحمد للہ! حقانی صاحب کی ایمانی قوت اور جذبے جوان تھے۔ گزشتہ چند سالوں سے ان کے جسم نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ وہ کئی عرصے سے بسترِ علالت پر تھے۔ حقانی صاحب ایک طویل المدت  مرض کا شکار ہوگئے تھے۔ جس کی وجہ سے جہادی محاذ پر داد شجاعت دینے اور  شہادت کی خواہش   پوری نہیں ہونا تقریبا ناممکن ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بیٹوں، ساتھیوں کو قربان (شہید) ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ انہیں مشورہ اور دعا کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے تھے۔ وہ اپنے محبوب قائد امیرالمؤمنین  کے ساتھ ملاقات  کی خواہش بھی  اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔

عمر کے آخری حصے میں ان کا مرض شدت اختیار کر گیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ جب  اللہ اپنے کسی محبوب بندے کو جنت میں اعلی ٰ مقامات  اور مرتبہ  دینا چاہتے ہیں، لیکن بندہ اپنے اعمال کے ذریعے اس  مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے بیمار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے درجات انتے بلند کر دیتے ہیں، جتنے اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھے ہوں۔ پھر اللہ اسے اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔  نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ۔

حقانی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن آنے والی نسلوں  کے لیے یہ درس چھوڑ گئے ہیں کہ جو اُن کے نقش قدم پر چلے گا، کامیاب ہوگا۔ حقانی صاحب کی زندگی ہمارے لیے عمل، اخلاص، زہد، تقویٰ، ایثار اور قربانی  کی ایک مثال بن گئی ہے۔ ہم انہیں اللہ کی راہ میں زندگی صرف کرنے والے ایک عظیم مجاہد سپہ سالار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ان شاء اللہ تعالی

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے