کویت سٹی: (ویب ڈیسک) دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک کویت کا خزانہ تیزی سے خالی ہونے لگا۔

بلومبرگ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک کویت ہے لیکن اب یہ صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

تیل پیدا کر نے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے رواں سال کورونا وائرس کے باعث تیل کی عالمی طلب میں کمی کا جائزہ لیا اور قیمتوں کا ازسر نو تعین کیا تاہم 40 ڈالرز فی بیرل قیمت کو اب بھی ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔

کویت کے سابق نائب وزیر اعظم اور 2016 میں اس وقت کے وزیر خزانہ انس الصالح نے خبردار کیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ کویت اخراجات میں کمی کرکے تیل کے بعد کی زندگی کے لیے خود کو تیار کرے۔

انس الصالح کی بات کو اس وقت کسی بھی سنجیدہ نہیں لیا اور لوگوں اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ تاہم، حال ہی میں مستعفی ہونے والے وزیرخزانہ بارک الشیطان نے گزشتہ ماہ متنبہ کیا تھا کہ اکتوبر کے بعد ملک کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں بچیں گے۔

سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ریاستیں اس وقت معاشی پالیسیوں میں تبدیلیاں لا رہی ہیں اور خود کو تیل کی معیشت کے بعد کی دنیا کے لیے تیار کر رہی ہیں۔

سعودی عرب نے گزشتہ سالوں کے دوران اپنے ملک میں معاشی اصلاحات لاتے ہوئے عوام پر کئی نئے ٹیکسز عائد کیے جبکہ بحرین اور اومان جیسی ریاستیں اپنے امیر پڑوسیوں سے قرض لے کر معاشی مشکلات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے بھی تیل پر انحصار ختم کرکے دبئی کو لاجسٹک اور فنانشل حب میں تبدیل کر دیا ہے لیکن کویت ایسی تبدیلیاں لانے میں سستی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں کی منتخب پارلیمنٹ اور حکومت جس کے وزیراعظم کو ریاست کے امیر منتخب کرتے ہیں، کے درمیان اختلافات ہیں۔

اس بحران کے باجود ایسا نہیں ہے کہ کویت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ کویت نے تیل ختم ہونے کے بعد بھی ترقی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے دنیا کو چوتھا بڑا 550 ارب ڈالرز کا فنڈ قائم کر رکھا ہے لیکن وہ فی الحال اسے استعمال نہیں کر سکتا۔

کچھ کویتیوں کا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فنڈ کو استعمال کر لیا جائے مگر اس کے مخالفین کا مؤقف ہے کہ معاشی اصلاحات اور ملازمتیں پیدا کیے بغیر یہ سیونگز یعنی فنڈ 15 سے 20 سال میں ختم ہو جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے