نئی دہلی: (ویب ڈیسک) رواں سال جون کے مہینے میں 20 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد چین اور بھارت کی کشیدگی ایک مرتبہ پھر بڑھنے لگی ہے، تازہ کارروائی کے دوران پیپلز لبریشن آرمی نے ایک اور بھارتی کمانڈو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپیشل فورسز کا ایک کمانڈو تازہ لڑائی کے دوران مارا گیا ہے، لڑائی کے دوران متعدد بھارتی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے، بیجنگ اور نئی دہلی ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

عرب خبر رساں ادارے کے مطابق تازہ کارروائی کے دوران مرنے والے بھارتی کمانڈو کا تعلق ہماچل پردیش سے تھا، ہماچل پردیش کی مقامی رہنما نے بھارتی فوجی کے مارے جانے کی تصدیق کی۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے اب تک چینی فوج کے ساتھ جھڑپ میں فوجی اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم تبت کی پارلیمنٹ کی ایک رکن نمگیل ڈولکر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں بھارتی فوجی کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہفتے کی رات چینی اور بھارتی فوج کے درمیان تصادم میں تبت ریجن سے تعلق رکھنے والا اسپیشل فورس کا اہلکار ہلاک ہواجبکہ ایک زخمی بھی ہوا ہے۔

دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے بھارتی فوجی کی ہلاکت کی خبروں پر رد عمل میں کہا ہے کہ بارڈر پر حالیہ جھڑپ میں کوئی بھارتی فوجی ہلاک نہیں ہو اہے۔

اس سے قبل بھارتی اخبار دی ہندو نے انکشاف کیا تھا کہ مرکزی حکومت کو ملنے والی انٹیلی جنس معلومات کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول کیساتھ لداخ کا تقریباً ایک ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ اس وقت چین کے زیر کنٹرول ہے۔ دوسری طرف چین نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ اگر بھارت مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو ماضی کے برعکس زیادہ فوجی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

اخبار کے مطابق چین اپریل سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کیساتھ فوج جمع کرکے اپنی موجودگی کو مستحکم کر رہا ہے۔ ایک افسر نے ‘دی ہندو ’ کو بتایا کہ ڈپسانگ کے میدانی علاقے سے چوشل تک چینی فوجی منظم انداز میں غیر معینہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کیساتھ نقل وحرکت کر تے رہے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈپسانگ کے میدانی علاقے میں پٹرولنگ پوائنٹ 10 سے 13 تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا بھارتی حصہ 900 مربع کلو میٹر کے لگ بھگ چین کے زیر تسلط ہے۔ ان میں وادی گلوان میں 20 مربع کلو میٹر اور ہاٹ سپرنگز میں 12 مربع کلو میٹرکا علاقہ مکمل طور پر چینی قبضے میں ہے ، پینگونگ تسو جھیل کا 65 مربع کلو میٹر جبکہ چوشل میں 20 مربع کلو میٹر کا علاقہ بھی چینی کنٹرول میں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پینگونگ تسو جھیل کے قریب فنگر 4 سے 8 تک ایک وسیع علاقہ بھی چینی فوج کے قبضے میں ہے ، جھیل سے متصل فنگر 4 سے 8 کا درمیانی فاصلہ 8 کلو میٹر ہے۔ اس علاقے میں مئی تک چینی اور بھارتی فوجی دونوں پٹرولنگ کرتے تھے ، بھارت کی نظر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا یہ علاقہ اس کا ہے ۔

یاد رہے کہ اس سے قبل چین اور بھارت کے فوجیوں کے مابین لداخ میں تازہ جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جس کے بعد سے چینی فضائیہ کے طیارے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)کے آس پاس فضا میں گشت کر رہے ہیں اور حالات کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔

بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق چین نے ایل اے سی کے پاس اپنی فضائی بیس ہوٹن پر جے ایف جنگی طیارے تعینات کر دیے ہیں جو لداخ میں سرحد سے بالکل متصل مسلسل پرواز کر رہے ہیں۔ اس دوران بھارتی فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے بھی سرحد پر تعینات فوجی کمانڈروں سے بات چیت کی ہے ۔ انہوں نے فوجی کمانڈروں کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے ۔

دوسری طرف لداخ میں سرحدی تنازعے پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دو روز قبل ہونے والی نئی چھڑپ کے بعد چین نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ اگر انڈیا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو ماضی کے برعکس زیادہ فوجی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات چینی حکومت کے حمایت یافتہ اخبار گلوبل ٹائمز نے منگل کو اپنے اداریے میں لکھی ہے۔

پیر ہی کو چینی فوج کے ترجمان نے کہا کہ انڈیا نے سرحد کی خلاف ورزی کی ہے اور مطالبہ کیا کہ انڈیا اپنی فوج وہاں سے نکالے۔ اس کی بارڈر فورس نے لائن آف ایکچول کنٹرول کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ انڈیا کہتا ہے کہ اس نے چینی فوج کی در اندازی روکی ہے۔ یہ فوج تھی جس نے کشیدگی بڑھانے میں پہل کی۔

بیجنگ میں حکومت کے حمایت یافتہ اخبار گلوبل ٹائمز نے غیر معمولی طور پر سخت الفاظ کے اداریے میں نئی دہلی کو جواب دینے کی بات کی ہے۔ اداریے میں لکھا ہے کہ پینگونگ سو جھیل کے اس ٹکراؤ سے واضح ہے کہ ہمسائے ملک نے وادیِ گلوان کے ٹکراؤ سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ وہ اب چین کو اشتعال دلا رہا ہے۔

اخبار میں مزید لکھا گیا ہے کہ انڈیا کو ’طاقتور چین‘ کا سامنا ہے اور نئی دہلی کو اس وہم و گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسے اس معاملے پر امریکہ کی حمایت ملے گی لیکن اگر انڈیا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو چین کے پاس انڈیا کے مقابلے میں زیادہ وسائل اور صلاحیت ہے۔ اگر بھارت فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو پیپلز لبریشن آرمی اس کو 1962 کی نسبت زیادہ شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ چین انڈیا سرحدی ٹکراؤ اور اس سے متعلق کئی چھوٹے بڑے مسئلے ابھی جاری رہیں گے۔ ان اختلافات کو پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا سبھی کے مفاد میں ہے۔ لیکن اگر بھارت چین کے ضبط کو مسلسل چیلنج کرتا رہے گا تو چین کو نرمی سے پیش آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے جب ضرورت ہو عسکری قدم اٹھانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جیت اسی کی ہوگی۔

اداریے میں لکھا ہے چین انڈیا سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ ہم اس کے اس بھرم کو لازمی طور پر چور چور کر دیں کہ وہ امریکہ جیسے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر چین کو ٹکر دے سکتا ہے۔

بھارت کے ایک ملٹری افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چوشل علاقے میں صورتحال بہت کشیدہ ہے۔ چینی فوجی بہت جارحانہ موڈ میں ہیں اور انڈین فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے وہاں بھاری کیلیبر کے ہتیھار کھڑے کر دیے ہیں۔ انڈیا نے بھی چینی پیش رفت کو پسپا کرنے کے لیے سپیشل فرنٹئیر فورس تعینات کر دی ہے اور ایل اے سی کے نزدیک بھاری ہتھیار نصب کر دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت دونوں ملکوں کی فوجیں تقریباً برابر کی تعداد میں اپنی اپنی پوزیشن کا دفاع کر رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے