افغان حکومت کا وفد آیندہ ہفتے طالبان سے مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ ملک میں گذشتہ 19 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدہ طے کیا جاسکے۔ یہ بات افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصالحت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے عرب ٹی وی  سے خصوصی گفتگو میں کہی ہے۔

انھوں نے بتایا ہے کہ قیدیوں سے متعلق امور سمیت امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں اسی ہفتے لویہ جرگہ میں غور کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’افغان قبائلی عمائدین کی اس اسمبلی میں ایک طرح سے سرکاری مذاکراتی ٹیم کے لیے رہ نما اصول وضع کیے گئے ہیں تاکہ ان اقدار کا تحفظ کیا جاسکے جن کے لیے افغان عوام نے قربانیاں دی ہیں۔‘‘

قبل ازیں افغان صدر اشرف غنی نے بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے مذاکرات اور جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنے کے لیے تیار ہے۔افغان حکومت نے امریکا اور اس کی اتحادی فورسز کے مرحلہ وار انخلا کی حمایت کا بھی اعادہ کیا ہے لیکن اس نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس ضمن میں طالبان کو دوحہ سمجھوتے میں طے شدہ شرائط کی پاسداری کرنی چاہیے۔

عبداللہ عبداللہ نے افغانستان میں مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی قیادت نے امن عمل کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ وہ ایک ایسا مستحکم اور جمہوری افغانستان چاہتی ہے جس سے اس کے پڑوسی ممالک کو کوئی خطرات لاحق نہ ہوں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے سرکاری بیان سے اس کا پس منظر مختلف ہے اور اب طالبان سے مذاکرات کے عمل میں تمام ممالک کے عملی اقدامات کو دیکھا جائے گا۔‘‘۔

افغان صدر اشرف غنی نے ایک روز پہلے ہی طالبان مزاحمت کاروں سے معاہدے کے لیے عبداللہ عبداللہ کے زیر قیادت بااختیار اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل تشکیل دی ہے۔یہ کونسل طالبان سے حکومت کے مذاکرات کے بعد طے پانے والے مجوزہ امن معاہدے پر دست خط کی ذمے دار ہوگی۔

چھیالیس ارکان پر مشتمل یہ مصالحتی کونسل مارچ میں اعلان کردہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے الگ ہے۔طالبان اور اس سرکاری مذاکراتی ٹیم کے درمیان اس ہفتے یا آیندہ ہفتہ کے اوائل میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت متوقع ہے۔ حکومتی ٹیم طالبان سے مذاکرات میں جن نکات پر اتفاق کرے گی، انھیں پھر حتمی غور اور منظوری کے لیے مصالحتی کونسل کو پیش کیا جائے گا۔

اس کونسل میں افغانستان کے مختلف سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات ،سابقہ اور موجودہ سرکاری عہدے داروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ نو خواتین کو بھی اس میں نمایندگی دی گئی ہے اور ان میں سے ایک کو کونسل کی نائب سربراہ بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں جنگ بندی کا سمجھوتا طے پایا تھا۔ اس میں افغانوں کے درمیان امن بات چیت کے لیے بعض شرائط وضع کی گئی تھیں۔ ان کے تحت افغان حکومت گذشتہ مہینوں کے دوران میں قریباً پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرچکی ہے۔اس کے جواب میں طالبان نے بھی افغان سکیورٹی فورسز کے قریباً ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کردیا ہے۔تاہم خیر سگالی کے ان اقدامات کے باوجود جنگ زدہ ملک میں تشدد کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور طالبان جنگجوؤں اور افغان سکیورٹی فورسز نے ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے