اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ محرم اُن چارمہینوں میں سے ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت سے ہی ”حرمت والا“ قرار دیدیا تھا۔ پھر ایک عرصے تک یہ چار حرمت والے مہینے اپنی ترتیب سے چلتے رہے مگر بعثت نبوی سے قبل مشرکین اپنی غلط روی کی وجہ سے ان مہینوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کر دیا کرتے تھے،جس سے وہ ان حرمت والے مہینوں کی حرمت پامال کرتے تھے۔

پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اس امت کو خاتم النبیین، رحمۃ للعالمینﷺ نصیب ہوئے۔ آپ کی بعثت نے لوگوں کو کفر و شرک اور دیگر تمام غلط کاریوں سے نجات دلانے میں اپنی پوری زندگی بھرپور جدو جہد فرمائی،حتی کہ اسی مقصد کے لیے اپنے پیارے اور مقدس وطن مکہ مکرمہ کو ترک کیا اور مدینہ منورہ کو جائے اقامت بنالیا۔

جب تک نبی کریمﷺ مکہ مکرمہ میں تھے تو مشرکین یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ اور آپ کی دعوت کو بڑی حد تک روک رکھا ہے اور اسی رکاوٹ کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا دِین اس طرح زیادہ دائیں بائیں نہیں پھیل پائے گا۔

مگر جب نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو بس یہ وہ بنیادی موڑ تھا جب خود مشرکین کو بھی نظر آگیا کہ اب وہ معاملہ جو ظاہری طور پر انہیں اپنے قابو میں نظر آ رہا تھا اب وہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

عرب کا عام دستور بھی یہی تھا کہ جب کسی قوم کا کوئی فرد کسی بھی اختلاف کی وجہ سے اپنی قوم سے نکل کر کسی اور قوم کی حمایت میں آجاتا اور وہ قوم اُس کی حلیف بن جاتی تو پہلا قبیلہ سمجھ لیتا تھا کہ اب معاملے سخت ہوگیا ہے کہ پہلے وہ اپنی ہی قوم کے ایک فرد کو دَبا کر یا ڈرا اور دھمکا کر کسی قدر جو قابو کیے ہوئے تھے اب وہ اکیلا نہیں رہا بلکہ فلاں فلاں قوم یا قبیلہ اُس کا حلیف بن چکا ہے اور یوں اس آدمی کی سوچ بھی اس قوم و قبیلے میں پھیلے گی اور اگر وہ اس قوم و قبیلے کو ان کے مقابلے میں لے آیا تومعاملہ اور زیادہ اس آدمی کے حق میں چلا جائے گا۔

اس لیے نبی کریمﷺ کی ”مبارک ہجرت“ ایک عام سفر نہ تھا بلکہ اسلام کی ترویج و اشاعت اور ترقی و مقبولیت کے ایک نئے اور آزاد دور کا آغاز تھا، چنانچہ مدینہ منورہ جانے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو آزادی کا ایک ایسا ماحول میسرآیا کہ پھر پورے عرب میں دعوتِ اسلام کے پیغام جانے لگے، اور جب مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی تو بھی انہیں منہ کی ہی کھانی پڑی۔

یہ وہ پوری صورت حال تھی جسے سامنے رکھ کر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کبارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت کے بعد تاریخ کے آغاز کے لیے آپﷺ کی ہجرت والے سال کو بنیاد بنایا اور اس سال میں اگرچہ ہجرت کا سفر ربیع الاول کو شروع ہوا تھا مگر چونکہ ربیع الاول کے بعدرجب جو حرمت والا مہینہ ہے وہ تین ماہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور ربیع الاول سے پہلے جو حرمت والا مہینے ہیں اس میں محرم سب سے قریبی ہے کیوں کہ محرم اور ربیع الاول کے درمیان صرف ایک ماہ کا فاصلہ ہے، اس لیے مناسب یہی سمجھا گیا کہ سال کا آغاز محرم سے کیا جائے اور اس لیے بھی یہ مناسب تھا کیوں کہ عرب کے عام دستور کے مطابق وہ جب حج کے لیے مکہ مکرمہ میں آتے تھے تو وہ پھر واپسی کا سفر عموماً محرم میں ہی شروع کرتے تھے اس لیے بھی ”سالِ ہجری“ کے آغاز کے لیے محرم کو منتخب کیا گیا۔

اس طرح اب قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے پاس جو اپنا کلینڈر وجود میں آیا وہ ایک طرف ”ہجرت“ کی نسبت رکھتا ہے کہ کلینڈر کا آغاز ہجرت نبوی سے کیا گیا اور دوسری جانب ”حرمت“ کی نسبت بھی رکھتا ہے کیوں کہ” محرم“حرمت والا مہینہ ہے۔

ہجرت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ دین کے لیے ظاہری و باطنی ہجرت کو سامنے رکھیں اور جب جس کا موقع ہو اس پر عمل پیرا ہوں۔ ظاہری ہجرت تو یہ ہے کہ دین کے تحفظ کی خاطر اپنا وطن ترک کیا جائے اور باطنی ہجرت یہ ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو ترک کیا جائے۔

……………….

اکثر مشہور روایات کے مطابق یکم محرم الحرام کی ہی تاریخ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، اور اُن کی وہ دعاء قبول ہوئی جس میں وہ مانگا کرتے تھے کہ:۔

“اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے حبیبﷺ کے شہر میں وفات عطاء فرما”

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی اسلام سے وفاکی ایسی تصویر ہے کہ جو آج بھی پوری طرح صاف ہے اور جو بھی اسلام سے اپنا رشتہ اور تعلق مضبوط کرنا چاہتا ہے تو وہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ اور احوال مبارکہ سے پوری رہنمائی لے سکتا ہے۔

اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ مقام حاصل کیوں نہ ہوتا جب کہ خود نبی کریمﷺ نے فرمایا دیا تھا کہ ”میرے بعد ان دویعنی:ابوبکر و عمر کی اِتباع و اِقتداء کرنا“

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مبارک زندگی کا سب سے بنیادی سبق یہ ہے کہ انسان جب اسلام سے وابستہ ہوجائے تو پھر پوری اپنی پوری قوت اسلام کی تقویت اور ترویج واشاعت کے لیے وقف کردے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی یہ بتلاتے ہیں کہ انسان کو نرمی بھی شریعت اور اللہ کا حکم دیکھ کرکرنی چاہیے اور سختی بھی شریعت اور اللہ تعالیٰ کا حکم دیکھ کرکرنی چاہیے اور ہر پہلو میں کمال حدپیش نظر ہونی چاہیے۔ چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مبارک منقول ہے کہ: ”میں جب اللہ کے لیے نرم ہوتا ہوں ہو مکھن سے زیادہ نرم ہوتا ہوں اور جب اللہ کے لیے ہی سخت ہوتا ہوں تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہوں“

لیکن آج ہم مسلمانوں کا عام رویہ کیا ہے؟ ہماری دوستی اور دشمنی کے پیمانے کیا ہیں؟ ہمارے سختی اور نرمی کے زاویے کون سے ہیں؟

اگر ہمارا یہ رویہ درست ہوجائے تو بے شک کتنے ہی بڑے بڑے مسائل چند دنوں میں بہتری کی طرف آجائیں ۔ خرابیوں کی ایک بڑی جڑ یہی ہے کہ اب جہاں شریعت کی طرف سے سختی مطلوب ہوتی ہے وہاں نرمی برتی جاتی ہے اور جہاں شریعت کی طرف سے نرمی مطلوب ہے وہ مکمل سخت رویہ اپنا لیا جاتا ہے، جس کانتیجہ یہ ہے کہ معاملات میں سُدھار کی بجائے بگاڑ زیادہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ اے اللہ! ہمارے مزاج کی نرمی اور سختی کو اپنی شریعت اور اپنی رضا کے تابع بنا دیجیے اور جہاںجہاں محسوس ہو کہ ہمارے مزاج کی نرمی اور سختی شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں اور اپنی اصلاح کی فکرکریں، کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے