قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں  (صحیح بخاری )۔

جی ہاں !۔

ایمان کی لازمی شرط ہے اور یہ شرط خود نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ آپ ﷺ کی محبت جب تک ہر دنیوی کی محبت پر غالب نہ آ جائے اس وقت تک دعوی ایمان کامل کا معتبر نہیں ہوتا۔

 عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے تشریف لا رہے تھے، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نہیں اے عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاوں (محبت کامل نہیں ہو سکتی )۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اب تو آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ہاں اب اے عمر  ( صحیح بخاری )۔

الآن یا عمر

ہاں اے عمر اب یعنی بات اب پوری ہوئی۔ محبت اب کامل ہوئی، عشق اب سچا ہوا اور ایمان اب پورا ہوا۔ جب یہ بات دل میں آ گئی کہ کوئی رشتہ، کوئی تعلق ، کوئی رغبت، کوئی چاہت آقا مدنی ﷺ کی محبت سے بڑھ کر نہیں رہی۔

بات اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ یہ مقام حاصل نہ ہونے تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔ قرآن مجید دیکھیے۔ سورۃ توبہ میں کیا فرمایا گیا ہے:۔

 کہہ دیجیے اگر تمہارے باپ، تمہاری اولادیں، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان ، تمہارے جمع شدہ اموال اور تمہاری تجارت جس کے گھاٹے کا تمہیں خوف ہے اور تمہارے گھر جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ، اللہ کے رسول ﷺاور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہو جائیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، بے شک اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ( التوبۃ )۔

جی ہاں! جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور ان کے نام پر جان دینے کی رغبت اوپر مذکور تمام رشتوں اور تعلقات سے زیادہ نہ ہو جائے ۔

انسان کا اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جانا اور رضائے الہٰی کا مستحق تو کیا بننا، عذاب کے خطرے سے دوچار رہتا ہے اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے  الشفاء میں یہاں تک لکھ دیا ہے کہ انہی لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے۔   فاسق  نافرمان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف چلے اور اوامر کو توڑے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ہر تعلق پر غالب رکھنا  اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو ایسا نہ کرے گا اور اس مقام کو پانے کی محنت نہ کرے گا وہ نا فرمان ہوا اور فسق میں پڑا…۔

حلاوت ایمان نصیب ہوتی ہے اس شخص کو جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت ہر تعلق پر غالب آ جائے۔ کیا حلاوت ایمان پانے کا اس کے سوا بھی کوئی راستہ ہے؟

نہیں ہے

دوسری روایت میں نفی کے ساتھ الفاظ ہیں:۔

 کوئی شخص حلاوت ایمان کو نہیں پا سکتا جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہر دوسری محبت پر غالب نہ آ جائے ( الحدیث شعب الایمان )۔

دوسری اہم بات یہ کہ جب یہ بات اچھی طرح جان لی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ایمان کی لازمی شرط ہے

اورا س کے بغیر دعوئے ایمان سچا نہیں ہوتا

یہ بات شک سے بالاتر اور شبہے سے پاک ہے

اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں ہونے کی لازمی علامت نبی کریم ﷺ کی محبت اور اتباع کا نصیب ہونا ہے۔

قرآن مجید نے یہود کے اس دعوے کو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب ہیں اسی دلیل کی بنیاد پر رد کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو ان کی زندگیاں اتباع رسول ﷺ سے اور ان کے قلوب محبت رسول ﷺ سے لبریز ہوتے۔

 اے نبی ! ان سے فرما دیجیے: اگر اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا ( آل عمران )۔

اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی سچائی کا ثبوت حبّ رسول ﷺ

اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب پانے کا ذریعہ بھی  حبّ رسول ﷺ

گویا دنیا و آخرت کی ہر خیر، ہر بھلائی اور ہر راحت موقوف ہے نبی کریم ﷺ کی محبت پر

 اور نبی کریم ﷺ نے اپنی محبت کی یہ علامات خود مقرر فرما دی ہیں جن سے جانا اور پہچانا جا سکتا ہے کہ آپ کا دل آپ ﷺ کی محبت سے حقیقی معنیٰ میں لبریز ہو چکا یا محروم ہے۔ اسی طرح ایک علامت یہ بھی مقرر فرمائی کہ:۔

أحبوا اللہ لما یغذوکم بہ من نعمہ، وأحبونی بحب اللہ، وأحبوا أہل بیتی بحبی ( ترمذی)۔

’’ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں صبح شام اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور مجھ سے محبت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت فرماتا ہے اور میرے اہل بیت سے محبت کرو کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ ‘‘۔

ہر وہ شخص جسے ایمان کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی قرابت کا شرفِ عظیم بھی عطاء ہوا اس سے محبت رَکھنا اور اس محبت کا اِظہار کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ یہ درحقیقت ایک مومن پر نبی کریم ﷺ کا حق ہے اور آپ ﷺ کی محبت کا حق ہے۔

سیرت کی عجیب شان والی اور اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد ترین کتاب ’’ الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ‘‘ (ﷺ) میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو بہت واضح اَلفاظ میں سمجھایا ہے۔ دراصل یہ ایک شیطانی حربہ ہے جس میں بہت سے لوگ شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی شخصیت کے مقام، مرتبے اور دینی خدمات کی وجہ سے اس کے ساتھ تو قلبی اعتقاد اور محبت کا معاملہ رکھتے ہیں لیکن اس کے اَقارب سے متعلق شیطان انہیں دوسری راہ پر ڈال دیتا ہے اور ان کا طرز عمل کچھ اچھا نہیں رہتا۔ اس حوالے سے شیطان کے وساوس اور دلائل بعض اوقات اتنے موثر ثابت ہوتے ہیں کہ معاملہ نفرت اور بغض تک جا پہنچتا ہے۔ اب خود سوچئے کہ اگر اس مقتدیٰ اور پیشوا کو علم ہو کہ اس سے محبت کا دَم بھرنے والے اس کے اقارب اور محبوب اہل خاندان کے ساتھ ایسا نفرت آمیز رویہ اور نظریہ رکھتے ہیں تو وہ خوش ہو گا یا بُرا محسوس کرے گا؟ نبی کریم ﷺ کو اپنے اہل ایمان خاندان اور اقارب سے قلبی محبت تھی۔ آپ ﷺ ان کی خوشی سے خوش اور ان کے رنج و غم سے رنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔

آپ ﷺ کے قلب مبارک میں ان کی قدر و منزلت تھی۔ آپ ﷺ موقع بہ موقع ان کی قدرو منزلت اور اپنی ان کے ساتھ محبت کا بَرملا اِظہار فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے بلند فضائل بیان فرمائے۔

جنت کے ہر طبقے کی سرداری کا ان کے حق میں اعلان فرمایا۔ سیدۃ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا وسلام اللہ علیہا کو جنت کی خواتین کی سرداری کا اِعزاز عطاء فرمایا۔ سیدین کریمین ریحانتین حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو جوانانِ جنت کا سردار قرار دیا۔ شہداءِ کرام کی جماعت کی سرداری کا اعزاز اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے سر پر سجایا۔ معمر اہل جنت کی سرداری کا اعلان اپنے دونوں سسر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں فرمایا۔ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں والد کا قائم مقام قرار دیا اور سب مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ ان کے مقام و مرتبے کا پاس نہ رکھنے والا اور انہیں ستانے والا نبی کریم ﷺ کو ستانے والا شمار ہو گا۔

اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ کی محبت اور دوستی کو ہر اس مومن پر لازم فرما دیا جو حُبِّ رسول کا دعویدار ہو۔ اور پھر اپنے تمام اہل قرابت کے متعلق اُمت کو یہ دردمندانہ تاکید جو اپنے اندر تنبیہ کا پیغام بھی لئے ہوئےہے، فرمائی :۔

اُذَکِّرُکُمُ اللہَ فی اَہْلِ بَیتْیِ…اُذَکِّرُکُمُ اللہَ فی اَہْلِ بَیتْیِ…اُذَکِّرُکُمُ اللہَ فی اَہْلِ بَیتْیِ (مسلم )۔

میں تمہیں اپنے اہل بیت کے معاملے میں اللہ کا خوف دِلاتا ہوں۔

یہ جملہ تین بار دُہرانا اپنے اندر تاکید اور تنبیہ کے کیسے معانی رکھتا ہے یہ کسی مومن سے مخفی نہیں۔

یقینی طور پر آپ ﷺ نے محسوس فرما لیا تھا کہ شیطان اس امت کو اس معاملے میں شکار کر کے گمراہی میں ڈالے گا۔ ان کے قلوب سے اہل بیت اطہار کی محبت نکال کر یا ان کا مقام و مرتبہ بھلا کر انہیں ایمان کی خوبی سے، نبی کریم ﷺ کی محبت کے عظیم تقاضے سے اور آقا ﷺ کے اس لازمی حق کی ادائیگی سے محروم کرنے کی سعی کرے گا اس لئے آپ ﷺ نے صرف اہل بیت اطہار کے فضائل کے ذکر پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ امت کو اس انداز میں تنبیہ بھی فرما دی۔ حضرات اہل بیت سے محبت اور قلوب میں ان کی عظمت کا وجوب نہ تو روایات کی قلت و کثرت پر موقوف ہے نہ روایات کی اِسنادی حیثیتوں پر بحث کا محتاج۔ ان کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرابت اور آپ ﷺ کی ان سے محبت بس کافی دلیل ہے جس کے بعد کسی دوسری دلیل کی حاجت ہی نہیں رہ جاتی۔

نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کون ہیں؟ یہ بات یاد کر لیں اور گھروں میں بھی یاد کرائیں۔

(الف) اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن وارضاھن ۔ کائنات کی وہ اعلیٰ ترین ہستیاں جنہیں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی زوجیت کے شرف کے لئے منتخب فرمایا۔ ان کی تعداد گیارہ ہے۔ (بارھویں حضرت آقا مدنی ﷺ کی باندی اور اُم ولد ہیں۔ )۔

۔(۱) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا

۔(۲) حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا

۔(۳) حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا

۔(۴) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

۔(۵) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا

۔(۶) حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا

۔(۷) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

۔(۸) حضرت زینب بن خزیمہ رضی اللہ عنہا

۔(۹) حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا

۔(۱۰) حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا

۔(۱۱) حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا

(۔(۱۲) حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

۔(ب) اَصْحَابُ الْکَسَاءْ … یعنی وہ چار حضرات جنہیں آیت تطہیر کے نزول کے وقت نبی کریم ﷺ نے اپنی چادر مبارک میں لے کر یہ دعاء فرمائی :۔

اللھم ھؤلاء اہل بیتی فطہرھم تطہیرا

۔(۱) حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا

۔(۲) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ

۔(۳) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ

۔(۴) حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ

۔(ج) نبی کریم ﷺ کی دیگر اَولاد

حضرت زینب رضی اللہ عنہا

حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا

حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا

حضرت قاسم رضی اللہ عنہ

حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ

۔(د) وہ تمام حضرات جو دادا اور پردادا ( عبد المطلب اور ہاشم ) کے ساتھ نسب میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہیں۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد

آلِ علی کرم اللہ وجہہ۔ جعفر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد۔ ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد۔

یہ سب حضرات اور خاندان نبی کریم ﷺ کے اہل بیت ہیں۔

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو اس باب میں اس قدر حساس تھے کہ نبی کریم ﷺ کا جن خاندانوں کے ساتھ سسرالی رشتہ قائم ہوا ان کی بھی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ غزوہ مریسیع ( بنو مصطلق) کے بعد جب نبی کریم ﷺ نے حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں لے لیا تو صحابہ کرام نے اس قبیلے کے تمام وہ افراد جو اس غزوے میں قید ہو کر مسلمانوں میں بطور غلام تقسیم کر دئیے گئے تھے آزاد کر دئیے کہ اب وہ نبی کریم ﷺ کے سسرالی رشتہ دار بن چکے تھے تو مسلمانوں نے انہیں غلامی میں رکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔

اہل بیت اطہار کے اسی اعزاز و اکرام کو قطعیت کے ساتھ اسی طرح بھی ثابت کر دیا گیا کہ ان کا ذکر نبی کریم ﷺ پر پیش کئے جانے والے درود و سلام کا حصہ بنا دیا گیا۔ سبحان اللہ! اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور پھر حضرت آقا ﷺ نے ایک خاص درود شریف ایسا بھی امت کو تعلیم فرما دیا کہ اس کی کثرت ایک مسلمان کے لئے ان نفوسِ قدسیہ سے محبت کو ثابت کرنے کی ایک بہترین اور قوی دلیل بن سکتی۔

عَن النبی صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انہ قال، مَنْ سَرَّہ اَنْ یکْتَالَ بِالْمِکْیَالِ الْاَوْفٰی اِذَا صَلّٰی عَلَیْنَا اَھْلَ البَیْت، فَلْیَقُلْ

 اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَّتِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اٰلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْدٌ۔ (رواہ ابوداؤد وغیرہ )۔

ترجمہ: جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ ہم اہل بیت پر درود شریف پڑھتے ہوئے بڑا پیمانہ بھر کر ثواب لے تو اسے چاہیے کہ ان الفاظ میں درودشریف پڑھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے