افغان قوم سميت پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ کابل حکومت پر مسلط کئے گئے اقتدارکے بھوکے حاکموں کاواحدہدف اپنی حکومت کی دوام اوراپنے مفادات کاحصول ہے ۔
اپنی اس ہدف کو پانے کے لئے وہ کسی بھی اخلاقی اقدارکی پرواہ نہیں کرتے ،اصول کی پابندی اورخلاف ورزی ، مشروع اورغیرمشروع جیسی اصطلاحات ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ،قوم اور دنیا بھر کے سامنے نیک نامی اوربدنامی کی بھی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔
چاہے قبضہ صدیوں تک رہے ،ملک فساد میں دنیابھر میں سب سے آگے جائے ،اغیارکی تہذیب ،بے حیائی اوربداخلاقی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہواور ملت کی تباہی وبربادی نسلوں تک جاپہنچے لیکن ان کی حکومت قائم رہے تو ان کے ماتھے پر بل بھی نہیں پڑنے والے بلکہ انہیں مزید خوشی ملتی ہے کیونکہ فساد،وحشت اورتباہیوں سے پھر پور اس حالت کو یہ لوگ اپنے اقتدار کی دوام ،لوٹ مار اوردولت اکٹھی کرنے کے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ کابل ادارے کے سربراہان نہ کبھی امارت اسلامیہ اورامریکہ کے مابین مذاکرات کے حامی تھے اورنہ یہ امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان کئے گئے اس تاریخی معاہدہ کے خواہشمند تھے ۔لیکن چونکہ ان کے ہاتھ چھوٹے تھے اوراس معاہدہ کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ،اس لئے مذاکرات کامیاب ہوئے اور ایک تاریخی معاہدہ وجود میں آگیا ۔
کابل ادارے کے یہ حکمران جب اس تاریخی معاہدے کور وکنے میں ناکام ہوگئے تو اس معاہدہ کو سبوتاژکرنے کی کوششیں شروع کردیں ، قیدیوں کی رہائی میں ٹال مٹول اس کی واضح دلیل ہے ۔
اس معاہدہ کے تحت دس دن کے اندر اندر پانچ ہزارطالبان قیدیوں کو رہاکرنا اور اس کے فورا بعد بین الافغانی مذاکرا ت شروع کرنا معاہدے کی پہلی شرط تھی ۔ چاہئے یہ تھا کہ اب تک پانچ ہزارسے زیادہ قیدیوں کی رہائی عمل میں آچکی ہوتی ، بین الافغان مذاکرات کی کئی نشستیں منعقدہوچکی ہوتیں۔ لیکن پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ کابل ادارے کی جانب سے دوحہ معاہدہ کے خلاف بے بنیاد الزامات اوربہانوں کے ذریعے اس عمل کو موخر کرنے اور عام شہریوں پر بمباری ،راتوں کو گھروں پر چھاپے اوردیگر سرگرمیوں سے اس معاہدہ کو سبوتاژکرنے کی کوششیں کی گئیں ۔لیکن چونکہ امارت اسلامیہ کو اس معاہدہ میں ملک وقوم کا عظیم فائدہ دکھائی دے رہاتھا اس لئے کابل ادارے کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اوردیگر عوامل کو برداشت کرکے اس معاہدے کو ختم ہونے سے بچالیا۔
کابل ادارے کے پاس جب کچھ بھی نہ رہا تو لے دے کے چھ سو قیدیوں پر انتہائی خطرناک کا لیبل لگاکر ایشو بنادیاہے ،کابل ادارے کے وزیرخارجہ حنیف اتمر نے پہلے کہا کہ ہم لسٹ میں شامل چھ سو طالبان قیدیوں کو اس لئے نہیں رہا کررہے کہ وہ خطرناک جرائم میں ملوث ہیں ۔لیکن دوسرے ہی دن بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہنے لگا کہ ہم ان قیدیوں کو اس لئے نہیں رہاکرسکتے کہ بیرونی دنیا ہمیں ان کی رہائی سے روک رہی ہے کہ انہوں نے ہمارے فوجیوں کو ماراہے ۔
پھر جب اس حوالے سے کابل ادارے پر بین الاقوامی دباؤ بڑھنے لگا تو اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے لویہ جرگہ کا شوشہ چھوڑدیا تاکہ لوگوں کو دکھاسکیں کہ یہ عالمی نہیں بلکہ ہمارااندرونی مسئلہ ہے ۔اورپھر کابل ادارے نے لویہ جرگہ کے نام سے ایک ایساجرگہ بنا یا جس کے تقریباتمام ممبرز کابل ادارے کے موجودہ یاسابقہ اہلکاریا حمایتی ہیں ۔
توقع کے عین مطابق جرگہ نے قیدیوں کی رہائی کی تائید کی ، جو ایک اچھی بات ہے اوراس سے جرگہ کے ممبران نے خود کو قوم کی سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیا لیکن اس کے برعکس کابل ادارہ قوم کے سامنے شرمندہ اورذلیل ہوکر رہا ۔
دنیااورافغان قوم پوچھ رہی ہے کہ ان سے پہلے رہاہونے والے قیدیوں کی رہائی کے لئےقوم کو کیوں اعتماد میں نہیں لیا گیا اوراس کے لئے جرگہ کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی؟
دنیا کا یہ بھی سوال ہے کہ لسٹ میں شامل پانچ ہزار افراد جنہیں امارت اسلامیہ اپنے مجاہدین کہتاہے تو یہ تسلیم کرتاہے کہ یہی وہ وفادار سپاہی ہیں جو ہمارے بچوں کے قاتلوں سے لڑے اورظاہرہے لڑائی میں جانبین سے اموات ہوتی ہیں ،ان میں سے زیادہ ترنے بیرونی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا ہوگا ،اورپھر اندرونی اوربیرونی فوجیوں کی تفریق کون کرے ، یا کس ملک نے کہاہے کہ رہاہونے والے مجاہدین میں سے ایک بھی خطرناک نہیں تھا یا ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے ہمارے فوجیوں کو نہ ماراہو ۔ بیرون دنیا کو کیسے معلوم ہو اکہ رہاہونے والے قاتل نہیں تھے اور یہ قاتل ہیں ؟
بیرونی اتحاد کی قیادت امریکہ کے پاس ہے تو جب اس نے مجاہدین کو رہاکرنے کا کہاہے تواورکون ہے جس نے کابل ادارے کو ان کی رہائی سے روک دیاہے ۔
اشرف غنی اوران کے ہم فکر وں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس طرح کاواضح جھو ٹ بول کر مزید قوم کو دھوکہ نہیں دیاجاسکتا ۔یہ حربے اپنا کر یہ زیادہ دیر تک حکومت میں رہ سکتے ہیں نہ ہی بیرونی دنیا انہیں کو عزت دے گی۔
افغانیوں کی مسلسل قربانیوں اور سیاسی میدان میں امارت اسلامیہ کی سمجھدار اور دوراندیش قیادت کی کوششوں ،معقول موقف اور بروقت فیصلوں کی بدولت اب حالت یہ ہے کہ بیرونی قابضین سرزمین افغانستان سے بوریابسترسمیٹ کر جارہے ہیں اوروطن عزیز میں صلح ،امن اوراسلامی نظام کا نفاذ حتمی ہے یہ الگ بات ہے کہ شائد اس میں دیر لگے لیکن چند کاسہ لیس اورغلام فطرت لوگ اپنی بقاکے لئے اس کا راستہ روک نہیں سکتے ۔
جب امریکہ اوراس کےا تحادی اپنی پوری قوت استعمال کرکے بھی اپنے اہداف تک رسائی حاصل نہیں کرسکے اوردوحہ معاہدے پر دستخط کے لئے راضی ہوگئے توان کی عدم موجودگی میں یہاں ان کے کاسہ لیس اورکٹھ پتلی کیسے یہاں عوام کے ارادوں کے برعکس اپنی غیر مشروع حکومت میں قائم رہ سکیں گے اورکیسے وطن عزیز میں امن وامان اوراسلامی نظام کے نفاذکا راستہ روک سکیں گے ؟ بلکہ وہ اپنے ان نامعقول حرکات کی وجہ سے لوگوں میں مزید نفرت کا نشانہ بنیں گے ۔
اب یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ قوم کی نظروں میں مزید گرنا چاہتے ہیں یا زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے امارت اسلامیہ کے جائز مطالبات اور معقول موقف کا مثبت جواب دینا چاہتے ہیں

بشکریہ ماہنامہ شریعت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے