مساجد سے جنت مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں… اسلام کی پہلی ’’مسجد ‘‘ ایک ’’مسافر‘‘ نے بنائی … حالانکہ ایک ’’مسافر‘‘ … اور سفر بھی ہجرت کا… سب سے پہلے اپنے ٹھکانے اور اپنے گھر کے بارے فکر مند ہوتا ہے… وطن چھوٹ گیا… گھر دشمنوں کے قبضے میں چلا گیا… ہجرت میں صرف ایک دوست ساتھ ہیں… اہلیہ محترمہ اور بیٹیاں ابھی ساتھ نہیں لا سکے… ان کو بھی لانا اور بسانا ہے… ایسے میں بس یہی فکر ہوتی ہے کہ… کوئی چار دیواری اور چھت مل جائے … پاؤں رکھنے کی جگہ مل جائے… مگر یہاں ایسی کوئی فکر نہیں… پہلا قیام ’’ بنی عمرو بن عوف‘‘ کے محلے ’’ قبا‘‘ میں ہوا… لمبے اور مشکل… پر مشقت اور خطرناک سفر کے بعد… اہل محبت نظر آئے تو پہلا کام کیا فرمایا ؟ … فوراً مسجد کی تعمیر شروع کروا دی…

مسجد قباء اسلام کی پہلی مسجد … اور بنانے والے وہ جو خود ہجرت میں تھے… سفر میں تھے اور اپنے رہنے کا کوئی ٹھکانہ ابھی تک نہیں تھا…

پھر ’’قبا ‘‘ سے مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی تو…وہاں بھی سب سے پہلے آپ ﷺ نے مسجد کے لئے جگہ منتخب فرمائی… اور پھر خود بھی اس کی تعمیر میں اپنے صحابہ کرام کے ساتھ شریک و شامل ہو گئے… دراصل زمین پر ’’مساجد‘‘ نہ ہوں تو یہ رہنے کے قابل ہی نہیں ہے… ’’مساجد ‘‘ ہی پر… اللہ تعالیٰ کے وہ انوارات اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں… جن کی برکت سے… یہ زمین آباد ہے… اللہ تعالیٰ نے زمین پر ’’مساجد‘‘ کو اپنا گھر قرار دیا… خالص اللہ تعالیٰ کا گھر…

اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا

اور جو زمین پر اللہ تعالیٰ کا گھر بناتا ہے… اللہ تعالیٰ اس کا ’’اپنا گھر‘‘ اپنے قرب اور جنت میں بنا دیتے ہیں… خالص اپنا گھر… جو کوئی چھین نہیں سکے گا… جس سے اسے کوئی نکال نہیں سکے گا… اور جس گھر میں اس کا بادشاہی اختیار چلے گا… جنت کا گھر… جنت کا محل… ہر نعمت، ہر لذت اور ہر راحت سے بھرپور… یا اللہ! نصیب فرما دیجئے… یا اللہ! نصیب فرما دیجئے…

ہے دنیا میں جنت مدینہ مدینہ

ہے جنت کی دنیا مدینہ مدینہ

دلاتا ہے یارو مساجد سے جنت

مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ

ویسے تو ہر نیکی ’’شاندار ‘‘ ہوتی ہے… مگر بعض نیکیوں کی شان…بہت منفرد ہوتی ہے… ان نیکیوں کی شان پر غور کیا جائے تو… دل ان کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے…

بخارا سمرقند جانے کا اتفاق ہوا… جگہ جگہ مساجد… اور ان کے ساتھ چند قبریں… سوویت انقلاب آیا تو… وہاں کی مساجد پر کیمونسٹوں نے قبضہ کر لیا… بے دین، بددماغ اور ناپاک کیمونسٹ… بالکل آج کل کے لبرل، سیکولر ملحدین جیسے…

ویسے ہمارے ملکوں میں کل تک جو ’’سوویت یونین ‘‘ کے پجاری تھے… وہ اب امریکہ، یورپ اور جدت پسندی کے پجاری بن چکے ہیں… اپنا قبلہ متعین نہ ہو تو انسان ہر در پر جھکتا اور گرتا ہے… سوویت یونین کے خوفناک طوفان کو… سولہ لاکھ شہداء کرام نے اپنے خون سے روند ڈالا… بخارا سمرقند کی جو مساجد… شراب خانوں اور اصطبلوں میں بدل دی گئی تھیں… ایک دَم واپس لوٹ آئیں… جہاں اَذان پر سزائے موت دی جاتی تھی… وہاں اب موذن تلاش کئے جا رہے تھے… اسلام اور مساجد کی واپسی کا دور تھا… اس وقت اللہ تعالیٰ نے وہاں کا سفر نصیب فرمایا… اس سفر نے ’’مسجد ‘‘ کے ساتھ محبت کو اور زیادہ بڑھا دیا… یوں سمجھیں کہ… یہ محبت دیوانگی میں بدل گئی …مسجد کا نور سمجھ میں آیا… مسجد کی طاقت آنکھوں سے دیکھی… اور مسجد کے مقام کو پہچاننے کی توفیق ملی… وہاں کیمونسٹوں نے ہر چیز کو ختم کر دیا تھا… بجھا دیا تھا… مگر مسجد نے اپنے سینے میں سب کچھ محفوظ رکھا… جیسے ہی منحوس انقلاب نے آخری ہچکی لی…مسجد مسکراتی ہوئی واپس آ کھڑی ہوئی اور پھر… مسجد کی برکت سے ہر بجھی ہوئی چیز دوبارہ روشن ہونے لگی… جو بھی مسجد میں آتا ہے…اگر سچے دل سے آتا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ اپنے ساتھ لے کر لوٹتا ہے… آپ تجربہ کر لیں … جب دل پر شہوت، غضب ، مایوسی اور غم کا طوفان حملہ کرے تو… فوراً چپکے سے …کسی ایسی مسجد چلے جائیں… جہاں آپ گمنام ہوں… پھر دیکھیں کہ… مسجد شریف آپ کو کیا کیا عطاء فرماتی ہے… بادشاہوں کے بادشاہ کا گھر… سخیوں کے سخی کا دربار…اور مالک الملک کے قرب کا مقام… وہاں سے کون خالی ہاتھ آ سکتا ہے؟ …

ہمیں دراصل ’’مسجد‘‘ جانے کا طریقہ اور ادب نہیں آتا… اور ہم مسجد میں جا کر بھی… اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں… اس لئے ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ… مسجد میں کیا کیا ملتا ہے؟ … مسجد میں کیا کیا تقسیم ہوتا ہے؟…

اللہ تعالیٰ ہمارے دل کی آنکھیں کھول دیں… اور ہمیں ’’مسجد‘‘ کے مقام کی ایک جھلک دکھا دیں تو پھر ہمیں …کبھی کسی اور ’’دربار‘‘ کی ضرورت ہی نہ پڑے… اور ہم مسجد کی محبت کے دیوانے بن جائیں… آپ حضرات صحابہ کرام کو دیکھ لیں… ان کی مسجد سے محبت کا کیا عالم تھا… وہ تو سفر کے دوران … کسی مسجد کو دیکھ لیتے تو رک جاتے اور وہاں کچھ نماز ادا کر کے… پھرآگے بڑھتے… دراصل ان کو نظر آتا تھا کہ… اندر کیا کیا جام ملتے ہیں… کیسے کیسے عشق کے مئے خانے سجے ہیں… وہ جہاں بھی جہاد کے لئے جاتے تھے… راستے میں اور پھر منزل پر بھی… مسجد بنا دیتے تھے… پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومت عطاء فرمائی تو انہوں نے نہ تاج محل بنائے… نہ مجسمے اور یادگاریں تعمیر کروائیں… نہ اپنے محل اور کوٹھیاں بنوائیں… وہ ہر جگہ سب سے پہلے مسجد بناتے…جس علاقے کی فتح کی خوشخبری امیر المومنین کو ملتی تو پہلا حکم یہ جاتا کہ فوراً وہاں… مرکزی مقام پر جامع مسجد … اور آس پاس دیہاتوں میں علاقائی مساجد بنائی جائیں… یوں اسلام اور جہاد کا نور ہر طرف پھیلتا گیا… دراصل مسجد کی حکومت بہت دور دور تک ہوتی ہے… جو مسجد جتنے اخلاص سے بنی ہو اور جس مسجد کی اعمال کے ذریعہ … آباد کاری ہوئی ہو… اس کا نور بہت عجیب طریقے سے دور دور تک پھیلتا ہے…اسی لئے حضرات محدثین نے بہت اَہم نکتہ لکھا ہے…وہ فرماتے ہیںکہ مسجد بنانے کی پوری فضیلت تب ملتی ہے جب مسجد کی عمارت بنائی جائے… صرف پلاٹ اور زمین مسجد کے لئے وقف کر دینا کافی نہیں ہے… حالانکہ یہ بھی بہت افضل عمل ہے… اور اس کے بغیر مسجد بن ہی نہیں سکتی… اور مسجد کے اجر میںزیادہ حصہ زمین والے کا ہی ہوتا ہے… مگر مکمل فضیلت تب ملے گی جب اس پر عمارت ہو… کیوں ؟ … دراصل یہ چار دیواری … اپنی گود میں اسلام کے انوارات کی حفاظت کرتی ہے… یہ مسلمانوں کا مرکز بنتی ہے… یہ مسلمانوں کی ’’اجتماعیت ‘‘ کا ذریعہ بنتی ہے… یہ اسلام ، جہاد اور مسلمانوں کو طاقت دیتی ہے… یہ عمارت بڑی ہو یا چھوٹی… یہ اتنی اہم ہے کہ… اللہ تعالیٰ زمین کی ساری دوسروں جگہوں سے زیادہ… اس سے محبت فرماتے ہیں… تو جب یہ… اللہ تعالیٰ کی محبت کے نازل ہونے کی جگہ بنی تو… اس سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے…

مدینہ کی مانو مدینہ کی مانو

مساجد بناؤ مساجد بناؤ

مساجد مساجد محبت محبت

مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ اگر کسی مسلمان کو توفیق عطاء فرمائیں… اور اس سے ’’اپنا گھر‘‘ یعنی مسجد بنوا لیں تو اس مسلمان کی نیکیاں… اب دنیا کا کوئی حساب دان شمار نہیں کر سکتا… کتنی اذانیں، کتنی نمازیں ، کتنا علم ، کتنے سجدے، کتنی تلاوت… کتنی دعائیں ، کتنے آنسو… کتنی توبہ… کتنے صدقات، کتنی دعوت، کتنا ذکر، کتنا درود شریف… اور معلوم نہیں کیا کیا … جو نیکی بھی اس مسجد میں ہو رہی ہے وہ تعمیر کرنے والے کے نامہ اَعمال میں بھی جا رہی ہے… وہ نیکیاں جو نظر آ رہی ہیں… مثلاً نماز، تعلیم ، ذکر، تلاوت وغیرہ… اور وہ نیکیاں جو نظر نہیں آ رہیں… مثلاً دلوں کی اصلاح، اچھے عزائم اور مسجد کی برکت سے پھیلنے والے نیک اعمال… کوئی حد نہیں… کوئی حساب نہیں… تعمیر کرانے والا سویا ہوتا ہے مگر مسجد تو جاگتی رہتی ہے… اس کا وجود ہی بہت بڑا نیک عمل ہے… زمین کا ایک ٹکڑا… سینما اور بازار بننے سے محفوظ ہو گیا… اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہو گیا… تعمیر کرانے والا مر جائے گا مگر مسجد تو زندہ رہے گی اور مزید زندگی پھیلاتی رہے گی… آپ تھوڑا سا اندازہ لگانے کی کوشش کریں… بابری مسجد 1992 میں شہید کر دی گئی… اس سے پہلے وہ چالیس سال تک بند رکھی گئی… مگر اس بابری مسجد نے اپنے نور، درد اور غم سے کتنا دین پھیلایا… کتنا نور جگمگایا… کتنے گناہگاروں کو تو بہ نصیب ہوئی… جہاد کے کتنے منکر جہاد کے حامی بنے… کتنوں کو شہادت نصیب ہوئی… کتنوں نے دنیا پرستی چھوڑ کر ایمان و تقویٰ کی زندگی اختیار کی… یہ سب اس ایک مسجد کی برکات ہیں جس میں نہ اذان ہو رہی ہے نہ باجماعت نماز… جہاں نہ درس ہو رہا ہے اور نہ جمعہ کا خطبہ… جہاں فی الحال ناجائز حرام کے بت رکھے ہیں… کعبہ کی یہ بیٹی کعبہ کے ماضی کو دھرا رہی ہے… مگر ان حالات میں بھی اس کے فیض کا یہ عالم ہے کہ… آج بھی ہزاروں نوجوان جب اس کا نام سنتے ہیں تو ان کے جسم کا خون تیز ہو کر… ان کے کانوں پر تھپیڑے مارنے لگتا ہے اور ان کے آنسو… ان کی داڑھیوں کو تَر کر دیتے ہیں…

اسی لئے تو اللہ تعالیٰ ہر کسی سے ’’مساجد‘‘ نہیں بنواتے … آپ کسی بھی شہر کے مالدار علاقوں میں چلے جائیں… کیسی کیسی کوٹھیاں ہیں اور کیسے کیسے بنگلے… ایک ایک کوٹھی پر اتنا خرچہ کہ اس سے دس مساجد آرام سے بن جائیں… مگر ان کو … توفیق نہ ملی… پلازے دیکھیں اور مارکیٹیں… اور پھر ان کی قیمت… حالانکہ آج کل ایک ڈیڑھ کروڑ میں پلاٹ سمیت اچھی مسجد بن جاتی ہے… ہر جگہ زیادہ مہنگی مساجد بنانا بھی اچھا نہیں ہے… مساجد کے معاملے میں جتنی سادگی رکھی جائے… اور حلال مال کا اِلتزام کیا جائے وہ اسی قدر بہتر ہے… آج پلازے اور کوٹھیاں بنانے والے لاکھوں ہیں جبکہ مساجد بنانے والے سینکڑوں بھی نہیں… یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے…

پلازوں اور بنگلوں پر لگنے والا مال… اکثر مٹی اور اینٹوں میں دفن ہو جاتا ہے… اور بعض اوقات سانپ اور بیماری بن جاتا ہے… جبکہ مساجد پر لگنے والا مال…ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ، مامون اور بابرکت ہو جاتا ہے اور جنت کی قیمت بن جاتا ہے…

اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعاء ہے کہ وہ …ہماری قسمت کھولے… ہمیں ایسا مال دے جو حلال ہو اور پھر فوراً اس مال کو… مسجد کے لئے قبول فرمائے… تاکہ ہمارے لئے بھی… ہمیشہ کے گھر میں …اپنے گھر… کا بندوبست ہو جائے… آج چونکہ ’’مساجد‘‘ پر بات چل رہی ہے اس لئے دین کے دیگر شعبوں پر خرچ کرنے کا تذکرہ نہیں آیا…

اپنے اپنے مقام پر … ہر شعبے کی فضیلت الحمد للہ بیان ہوتی رہتی ہے … دین کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے اور نہ مقابلہ… دین کے ہر شعبے کے اپنے فضائل ہیں… اور اپنے مقامات…

اللہ تعالیٰ ہمیں پورے دین کے لئے قبول فرمائیں… الحمد للہ ’’نو ‘‘ مساجد کی تعمیر جاری ہے… اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے… مزید بیس مساجد کے لئے آواز لگ چکی ہے… آئیں ہم سب مل کر … اللہ تعالیٰ سے ’’خوش نصیبی ‘‘ کا سوال کریں … اور ان بیس مساجد میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈالیں…

ہے رحمت کی بارش مساجد مساجد

عمل کے ہیں چشمے مساجد مساجد

ہمیں راستہ دے دیا ہے سہانا

ترا شکریہ اے مدینہ مدینہ

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے