حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 561)

اسلامی تاریخ کا روشن نام سیدنا عمر…

عدل کی دنیا کا معتبر نام سیدنا عمر…

شجاعت و عزیمت کی تابندہ مثال سیدنا عمر …

ایمانی بصیرت اور جہادی غیرت کا انمٹ نشان سیدنا عمر…

رضی اللہ تعالیٰ عنہ،رضی اللہ تعالیٰ عنہ،رضی اللہ

آپ کی کنیت ابو حفص ، نام عمر اور فاروق اعظم لقب ہے ۔ سلسلہ نسب کعب بن لوئی میں حضور نبی اکرم ﷺسے ملتا ہے۔ آپ عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بڑے ہو کر کشتی، فن سپہ گری اورخطابت میں خوب مہارت حاصل کی۔ اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے آپ قریش کے لئے سفیر کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ عدل وانصاف اور دیانتداری کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں آپ کو قبائل عرب اپنے جھگڑوں میں ثالث تسلیم کرتے تھے۔ معاشی بہتری کے لیے آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور دور دراز علاقوں کے سفر کئے جس کی بدولت تجربہ اور معلومات کا ذخیرہ آپ کے پاس جمع ہو گیا۔

آپ کی خصوصیت ہے کہ آپ مرادِ رسول ہیں کیونکہ آپ کے اسلام لانے سے دو روز قبل رسول اﷲ ﷺ نے دعاء کی تھی:

اللّٰھُمَّ اَعِزِّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بِعَمْرِو بْنِ ہِشَام

ترجمہ:اے اﷲ!عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام ( ابو جہل) میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو عزت و غلبہ عطا فرما۔ (جامع ترمذی باب فی مناقب ابی حفص)

حضرت عبد اﷲبن مسعود رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں :حضرت عمر فاروق رضی اﷲعنہ کے قبولِ اسلام سے مسلمان بالادست ہوگئے ۔(بخاری)

کفار قریش نے کہا:

قَدِ انْتَصَفَ الْقُوْمُ

آج قوم آدھی رہ گئی ہے اور گویا اس روز کفار قریش کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔

حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد بارگاہِ نبوی میں عرض کی: یارسول اﷲ!کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا:کیوں نہیں۔ تو عرض کیا: حضور! ہم اپنا دین کیوں پوشیدہ رکھیں؟ چنانچہ مسلمانوں کی دو صفیں بنیں ایک کی قیادت عمِ رسول حضرت امیر حمزہ رضی اﷲعنہ نے فرمائی اور دوسری صف کی قیادت حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے فرمائی اور مسجد حرام میں داخل ہو کر اسلام کا بآواز بلند اظہار کیا اور اعلانیہ عبادت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے مسجد حرام میں کھل کر اسلام کا اظہار کیا اور اعلانیہ عبادت کی اس موقع پر رسول اﷲﷺنے آپ کو فاروق (حق وباطل میں فرق کرنے والا) کا خطاب عطا کیا اور اب دنیا بھر کے تمام مسلمان آپ کوفاروق اعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اعلانیہ عبادت اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا حتی کہ آپ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اعلانیہ ہجرت کی جبکہ دیگر مسلمانوں نے خفیہ ہجرت کی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میں آپ کو نبی ﷺنے اپنے ساتھ رکھا اور فرمایا:

مَا مِنْ نَّبِیٍّ اِلَّا وَلَہ وَزِیْرَانِ مِنْ اَھْلِ السَّمَاء ِ وَوَزَیْرَانِ مِنْ اَھْلِ الْاِرْضِ۔ اَمَّا وَزِیْرَایَ فِی السَّمَاء ِ فَجِبْرَء ِیْلُ وَمِیْکَاء ِیْلُ وَوَزِیْرَایَ فِی الْاَرْضِ فَاَبُوْبَکْرٍ وَّعُمَرُ۔(جامع ترمذی ومشکوٰۃ المصابیح)

ترجمہ: یعنی ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں سے اور دو وزیر زمین والوں سے ہوتے ہیں چنانچہ میرے وزیر اہل سماء سے جبرئیل اور میکائیل ہیںاور زمین والوں سے ابو بکر وعمر (رضی اﷲعنہما)ہیں۔

رسول اکرم ﷺآپ پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے آپ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اﷲعنہا کو نکاح میں لے کر آپ کو اپنا سسر ہونے کا شرف بھی عطا فرمایا۔

حضرت عبد اﷲبن حنطب رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں:حضرت رسول اﷲﷺنے ابو بکروعمررضی اﷲعنہما کو دیکھا تو فرمایا:

ھَذَانِ السَّمْعُ وَالْبَصْر

ترجمہ:یہ دونوں میرے کان اور آنکھیں ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ)

حضرت ابو بکر وعمررضی اﷲعنہما نے جنگ بدر کے موقع پر وادی ذفران میں رسول اﷲﷺکو سب سے پہلے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اور جنگ بدر میں ہی حضرت عمر فاروق کے غلام مہجع سب سے پہلے شہید ہوئے۔ جنگ تبوک کے موقع پر آپ نے اپنے تمام مال کے دوحصے کئے، ایک حصہ جہاد کیلئے بارگاہ نبوی میں پیش کیا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا:

ھَلْ لِاَحَدٍ مِنْ الْحَسَنَاتِ عَدَدَ نَجُوْمِ السَّمَاء ِ

ترجمہ:کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ فرمایا:ہاں عمر کی نیکیاں۔

تو میں نے عرض کی:

اَیْنَ حَسَنَاتُ اَبِیْ بَکْر

حضرت ابو بکر کی نیکیاں کہاں ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:

اِنَّمَا جَمِیْعُ حَسَنَاتِ عُمَرَ کَحَسَنۃٍ وَّاحِدَۃٍ مِّنْ حَسَنَاتِ اَبِیْ بَکْر

ترجمہ: بیشک عمر کی تمام نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے مثل ہیں۔

ایک بار رسول اﷲﷺاحد پہاڑ پر تشریف لائے آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر وعمروعثمان رضی اﷲعنہم تھے پہاڑ میں زلزلہ کی کیفیت پیدا ہوئی تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا:

اُثْبُتْ یا اُحُد فَاِنَّمَا عَلَیْکَ نَبِیٌّ وصِدِّیْقٌ وَشَھِیْدَان

ترجمہ:اے احد! ٹھہر جا تجھ پر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔

تو احد پہاڑ پر طاری لرزاہٹ فورًا ختم ہو گئی ۔

رسول اﷲﷺنے فرمایا:

اِنَّ اَبَا بَکْرٍ وَّعُمَرَسَیِّدَا کَھُوْلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ مَاسِوَی النَّبِیِّیْنَ وَالمُرْسَلِیْن (مشکوٰۃ باب مناقب ابی بکر وعمر فصل ثالث)

ترجمہ:بیشک ابو بکر اور عمر (رضی اﷲعنہما ) درمیانی عمر کے جنتیوں کے سردار ہیں ۔

آپ کے ساڑھے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی خلافت ایران، بلوچستان، خراسان(سمرقند بخارا وغیرہ) سے طرابلس الغرب (تقریباً 22لاکھ 51ہزار 30مربع میل) تک پھیل گئی جو تاریخ انسانی میں اتنی مدت میں ریکارڈ ہے۔ جس میں دمشق، رومیوں کا وسط ایشیاء میں دارالخلافۃ حمص، فلسطین، مصر، طرابلس الغرب،اردن،ایران(جوکہ اس وقت عراق، بلوچستان، کابل، ماوراء النہر خراساں اور بے شمارعلاقوں پر مشتمل تھا) اور 1000سے زائد بلاد فتح فرمائے اور پھر زمین پر عدل وانصاف اور دیانت داری کی اعلیٰ اسلامی اخلاقی مثالیں قائم فرمائیں۔ جس کی وجہ سے ایک طرف مخلوقِ خد ا کے دلوں میں حق پرستی اور پاکبازی پیداہوئی تو دوسری طرف ایسا فلاحی نظام قائم کیا کہ ہر شخص کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کیں حتیٰ کہ جانوروں کے تحفظ کا نظریہ دیا اور فرمایا اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہریگا۔

کاش کہ اج بھی اسلامی ممالک کے حکمران دورِ فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو پیش نظررکھ کر نظام حکومت قائم کریں تو نہ صرف اسلامی ممالک میں خوشحالی اور امن و آشتی کی فضا ء پیدا ہوجائے گی بلکہ زمانہ بھر کے غیر مسلم اسلام کے اعلیٰ اور کامل فلاحی وسعاداتِ دارین کے ضامن نظام سے متأثر ہو کر حلقہ بدوش اسلام ہونے لگیں گے۔

آپ شاہانہ تکلفات اور سخت گیری سے آزاد تھے ۔ حق بات سننے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے دوران خطبہ سوال کیا کہ آپ نے جو چادریں تقسیم کی ہیں آپ نے ایک سے زیادہ چادر سے اپنا لباس تیار کر وایا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میرے بیٹے عبد اﷲبن عمر نے اپنے حصے کی چادر مجھے دے دی تھی میں نے کوئی خیانت نہیں کی۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:اگر میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام سے ہٹوں تو کیا کرو گے؟ ایک نوجوان نے تلوار سونتی اور کہا:ہم آپ کی گردن کاٹ دیں گے تو آپ رضی اﷲعنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: جب تک ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے احکام سے روگردانی نہیں کر سکتا۔

نیز فرمایا: اَحَبُّ النَّاسِ اِلیَّ مَنْ رَفَعَ اِلیَّ عُیُوبِیْ

 ترجمہ:مجھے سب سے پیارا وہ ہے جو میرے عیوب ونقائص میرے سامنے رکھے۔

آپ نے فوج، ڈاک، بیت المال، پیمائش، پولیس اور دیگر محکمے قائم کیے، منزلیں اور سرائیں قائم کرائیں۔ 4000مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے 900جامع تھیں، سن ہجری جاری فرمایا، نمازِ تراویح با جماعت ختم قرآن کے ساتھ شروع فرمائی، مساجد میں روشنی کا انتظام فرمایا، شہروں میں پہرے مقرر کیے، تاجر کیلئے تعلیم لازم فرمائی، مدارس قائم فرمائے، اساتذہ کے وظائف مقرر فرمائے۔ اپنی حکیمانہ اسلامی بصیرت سے  اہل کتاب کی عورتوں سے سیاسی طور پر نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ مؤلفۃ القلوب کی بجائے مسلمانوں کو زکوۃ دینے کا حکم فرمایا۔ مسجد نبوی کی توسیع فرمائی اور سادگی برقرار رکھی۔ مسجد حرام کے ارد گرد پہلی بار چار دیواری قائم فرمائی۔ آپ نے وصیت نبوی کے مطابق یہود کو حجاز مقدس سے نکال دیا اور تمام غیر مسلموں کو گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی دی لیکن پبلک مقامات پر انہیں تبلیغ کا حق نہیں دیا۔ آپ نے دریائے نیل سے بحیرہ قلزم تک 69میل لمبی نہر، نہر امیر المؤمنین کے نام سے کھدوائی جس میں کشتیاں چلتی تھیں اسی طرح متعدد دیگر نہریں بھی کھدوائیں جن سے ایک نہر نہر ابی موسیٰ اشعری کے نام سے مشہور ہوئی۔

2251030 مربع میل ریاست کے امیر ہونے کے باوجود آپ فقیر صفت، دلق پوش اور بیت المال سے ایک مزدور کے برابر وظیفہ لینے والے حاکم تھے۔ ایک بار قیصرِ روم کا ایلچی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اوریہ دیکھ کر کہ آپ ایک مزدور کے لباس میں مسجد میں سرہانے اینٹ رکھ کر قیلولہ فرمارہے ہیں نہ کوئی سیکیورٹی ہے نہ پہرے دار، ایسا متأثر ہوا کہ واپس جا کر پھر مدینہ منورہ آیا اور اسلام قبول کر لیا۔

جب بیت المقدس فتح ہوا تو آپ بیت المقدس تشریف لے گئے قمیص پر 14 پیوند تھے خود پیدل اور خادم گھوڑے پر سوارتھا۔ صحابہ نے اچھا لباس پہننے پر اصرار کیا تو فرمایا: اﷲنے یہ عزت لباس کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے عطا فرمائی ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ 26ذوالحج 23 ھ بروز بدھ آپ مسجد نبوی میں نمازِ فجر کی پہلی رکعت میں قراء ت فرما رہے تھے کہ ایک مجوسی غلام ابو لؤ لؤلعین نے آپ کو دو دھاری خنجر سے شدید زخمی کیا۔ جس کے بعد یکم محرم الحرام کو آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

آپ نے شدید زخمی حالت میں چھ اشخاص حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد ابی وقاص اور حضرت عبد اﷲالرحمن بن عوف (رضی اﷲعنہم)کے بارے میں فرمایا:اِن چھ اشخاص سے رسول اﷲﷺوفات کے وقت بہت خوش تھے اور میں خلافت کا معاملہ اِن کے سپر د کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲعنہ نے کثرت رائے کی بنیاد پر حضرت عثمان رضی اﷲعنہ کی خلافت کا اعلان کیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲعنہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیٹے عبد اﷲبن عمر رضی اﷲعنہ کو خلیفہ مقرر فرمادیں تو سخت ناراض ہوئے۔ اپنے بیٹے عبد اﷲبن عمر رضی اﷲعنہ سے فرمایا:میرے قرض کا حساب کرو حساب ہوا تو قرضہ 86000درہم تھا فرمایا: میرا مکان بیچنا اور قرضہ ادا کرنا اگر مکان سے پورا نہ ہوتو میرے اہل وعیال قرضہ ادا کریں اور اگر نہ کر سکیں تومیرے خاندان بنو عدی کے لوگ وگرنہ پھر قبیلہ قریش قرضہ ادا کرے گا۔ سبحان اﷲ!حکومت راشدہ کا کمال ہے کہ آج کے پچاس ملکوں کے برابر ریاست کا حاکم ہونے کے باوجود مقروض ہو کر اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہور ہے ہیں۔

اپنے بیٹے حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲعنہ سے زخمی حالت میں کہا:اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاؤ!اب امیر المؤمنین نہ کہنا بلکہ کہنا عمر عرض کرتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تدفین کی اجازت چاہتا ہے۔ حضرت اُم المومنین نے فرمایا:یہ جگہ تومیں نے اپنے لئے سوچی تھی لیکن میں امیر المومنین حضر ت عمر رضی اﷲعنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اﷲعنہ واپس آئے تو فرمایا:مجھے اٹھاؤ پھر فرمایا:کیا خبر ہے،عرض کی: اے امیر المومنین! جو آپ پسند کرتے ہیں۔ تو آپ نے کہا:

اَلْحَمْدُِ للّٰہِ!مَاکَانَ شَیْء ٌ اَھَمَّ مِنْ ذاَلِکَ اِلَیَّ

ترجمہ:الحمد ﷲ!کوئی شے اس سے میرے نزدیک زیادہ اہم نہیں تھی۔ پھر فرمایا:میری شہادت کے بعد پھر اُم المؤمنین سے پوچھنا اگر اجازت دیں تو فَبِہا وگرنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲعنہ اکثر دعاء کرتے تھے:

اللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِک وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِک (بخاری)

ترجمہ:اے اﷲ!مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور میری موت اپنے رسولﷺکے شہر میں فرما۔

چنانچہ اﷲتعالیٰ نے آپ کی دعاء من وعن قبول فرمائی اور آپ کی قلبی خواہش کے مطابق آپ روضہ رسول میں نبی کریمﷺ اور سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

رضی اللہ تعالیٰ عنہ،رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بشکریہ القلم پشاور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے