جمعرات 13 اگست 2020ء کو خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات نےاسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ براہ راست تعلقات کے قیام کا اعلان کیا۔ اس طرح مصر اور اردن کے بعد امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے۔
بہ ظاہر اسرائیل اور امارات کے درمیان تعلقات کا قیام امریکا کی کوششوں سےعمل میں لایا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کہا کہ ان کی طویل مساعی کے نتیجے میں امریکا کے دو دوست ملک اسرائیل اور متحدہ عرب امارات بھی ایک دوسرے کے دوست بن گئے ہیں۔

تاہم امارات اور صہیونی ریاست کےدرمیان تعلقات کا قیام کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں ملک کئی سال سے ایک دوسرے کے قربت کی کوشش کررہے تھے اور دونوں کی قیادت مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے خفیہ ملاقاتیں کرتی رہی ہے۔

خلیجی ممالک بالخصوص امارات اور اس کے دوست ممالک کی طرف سے فلسطینی تحریک مزاحمت کے خلاف مذموم مہم بھی انہی تعلقات کاشاخسانہ ہے۔ ان میں سعودی ٹی وی چینل العربیہ جو امارات سے نشریات پیش کرتا ہے اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے۔ العربیہ نے فلسطینیوں کے خلاف نفرت کے اظہار اور فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی رپورٹنگ اور جعلی خبروں سے بھی گریز نہیں کیا۔

خلیجی میڈیا کا کردار
خلیجی اور سعودی صحافی بھی اپنےنام نہاد دانشورانہ خیالات میں عبرانی ریاست کی تعریف وتوصیف کرتے پائے گئے ہیں اور کئی ایک خلیجی صحافیوں اور برائے نام دانشوروں کو اسرائیلی ٹی وی چینلوں پر مہمان بھی بنایا گیا۔
رواں سال ماہ صیام میں سعودی عرب کے مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے ٹی وی چینلوں پر ایسے ڈرامے نشر کرنا شروع کیے جن میں اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات کے قیام کے لیے رائے عامہ ہموار کی گئی ہے۔ ان ڈراموں میں اسرائیل کو ایک پیارا دوست اور معصوم قرار دینے کی مذموم کوشش کی گئی اور صہیونی ریاست کے مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف وحشیانہ جرائم پر پردہ ڈالا گیا۔

سعودی عرب میں ایک سال سے زاید عرصے سے 62 فلسطینی شخصیات کے پابند سلاسل کیے جانے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ان تمام واقعات کو خلیجی ملکوں اور صہیونی ریاست کے درمیان در پردہ
تعلقات کے باب میں دیکھا جانا چاہیے۔

امارات ۔ اسرائیل دوستی کا تاریخ‌ وار جائزہ
اب ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات کے باہمی تعلقات کا پتا چلتا ہے۔
سنہ 2017ء کو اسرائیل کے ایک عبرانی اخبار’ہارٹز’ نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے سنہ 2012ء میں نیو یارک میں امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید آل نھیان سے ملاقات کی تھی۔
عبرانی اخبار نے لکھا کہ نیویارک کے دورے کے دوران نیتن یاھو اور اماراتی وزیر خارجہ نے ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا تھا اور دونوں ایک مخصوص لفٹ کے ذریعے اپنے کمروں تک یک ساتھ پہنچے تھے۔
سنہ 2015ء کو میڈیا میں خبریں چھپیں کہ فلسطین کے ایک منحرف لیڈر محمد دحلان نے امارات کے وزیر مشیر خارجہ عبداللہ بن زاید آل نھیان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک ہوٹل میں ہوئی تھی۔
ستمبر 2016ء کو ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ امریکی ریاست نیواڈا میں ہونے والی فوجی مشقوں میں امریکی فوج کے ساتھ پاکستانی فوج، اسپین، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی افواج نے شرکت کی تھی۔
مارچ 2018ء کو امارات کی فوج نے امریکا، یونان، اٹلی اور اسرائیل کی فوج کے ساتھ امریکا میں ہونےوالی فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔
سنہ 2017ء‌کو امارات نے اسرائیلی کھلاڑیوں کو دبئی میں ہونے والے جوڈو کے مقابلے میں‌ حصہ لینے اور اسرائیلی پرچم لہرانے کی اجازت دی تھی۔
اسرائیلی وزیر مواصلات ایوب القرا نے30 اکتوبر 2018ء‌کو ہونے والی ایک بین الاقوامی ٹیلی کام کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
جولائی 2019ء‌کو اسرائیل کے سابق وزیرخارجہ یسرائیل کاٹز نے ابو ظبی میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کی۔
اسرائیلی اخبار’ہارٹز’ کی رپورٹ کے مطابق 20 اگست 2019ء کو ابو ظبی انتظامیہ اور اسرائیل نے جدید انٹیلی جنس آلات اور جاسوسی نظام کی تیاری کے ایک مشترکہ منصوبے پر کام شروع کیا۔ اس منصوبے کی لاگت تین ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک اس میں برابر حصہ ڈال رہےہیں۔
دس اپریل 2020ء کو متحدہ عرب امارات نے لیبیا کے منحرف جنرل خلیفہ خفتر کو اسرائیل سے خریدا گیا ایک فضائی دفاعی نظام بھیجا۔
بیس مئی 2020ء کو اماراتی ایئرلائن نے اسرائیل کا سفر کیا اور بہ ظاہر اس پرواز میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے کرونا سے نمٹنے کے حوالے سے ادویات بھیجی گئی تھیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی اس کے حوالے سے لا علم ہے۔
چھ جون 2020ء کو اسرائیل اور امارات نے متحدہ عرب امارات میں مقیم تین ہزار یہودیوں کی نمائندگی کے لیے ایک مشترکہ ٹویٹر اکائونٹ تیار کیا۔
دس جون 2020ء کو امارات کے اتحاد ایئرلاین کا ایک طیارہ امدادی سامان لے کر تل ابیب پہنچا۔ یہ امارات کی اسرائیل کے لیے دوسری پرواز تھی۔
سولہ جون کو اماراتی وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے امریکا کے یہودیوں کی طرف سے منعقد کی گئی ایک ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسرائیل اور عرب ممالک کےدرمیان رابطہ چینل قائم کرنا تھا۔
پچیس جون کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اعلان کیا کہ اسرائیل جلد ہی امارات کے ساتھ مل کر کرونا کے انسداد کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر کام شروع کرے گا۔
چھبیس جون کو امارات نے اسرائیل کو کرونا کے ایک لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کا تحفہ دیا۔
تین جون کو اسرائیل کی دو کمپنیوں نے امارات کی ‘جی 42’ کمپنی کے ساتھ مل کر کرونا کی وبا کا حل نکالنے کے ایک مشترکہ پروجیکٹ پر کام شروع کیا۔
دس اگست کو ایک یمنی یہودی خاندان کے افراد کو امارات میں مقیم اپنے دیگر اقارب سے ملنے کی اجازت دی گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے