تحریر: ابو محمد الفاتح
لویہ جرگہ کو منعقد ہوئے ہفتہ بھر سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، کابل انتظامیہ کے سربراہ نے جرگہ کے اختتام پر ایک نام نہاد فرمان کے نام پر بقیہ چارسو قیدیوں کی رہائی کے معاملہ پر دستخط کردیا-لیکن ہنوز بھی وہ فرمان مکمل نافذ نہیں ہواہے-تاخیر درتاخیر کی کوئی وجہ باقی نہیں اس لیے بتائی بھی نہیں گئی-کابل انتظامیہ کی پر اسرار خاموشی بدستور جاری رہی البتہ میڈیا میں مختلف وجوہات بتائی جارہی تھیں-جن میں ایک یہ کہ بعض ممالک جیسےآسٹرالیا اور فرانس نے چند ان قیدیوں کی رہائی پر اعتراض کیا ہے۔جنھوں نے انہیں ممالک کی فوج پر حملے کیے تھے اور مبینہ طور پر ان کے قتل میں ملوث تھے-
اگست ۱۶  کو کابل انتظامیہ کے فریقِ دوم ڈاکٹر عبداللہ کی پارٹی کے ایک فرد فریدون خوزون نے اعتراف کیا کہ فرمان کے نافذ نہ ہونے کی وجہ بعض ممالک کے تحفظات ہیں اور اس وقت ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں -ہم کوشش کریں گے کہ انہیں اس مسئلہ پر منائیں اور قیدیوں کی رہائی پر قائل کریں
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلے تو قیدیوں کی رہائی امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا ایک جزء ہے اور انہیں کے ساتھ طے شدہ ہے -اور امریکا نے جس بات پر دستخط کیا ہے ظاہر ہے وہ صرف امریکا کی بات نہیں بلکہ اس کے تمام اتحادیوں کی متفقہ بات ہے -اگر کسی اتحادی کو اعتراض تھا بھی تو اس وقت اظہار کرلیتے اور اپنے تحفظات کا بتلادیتے -مگر اس وقت تو ایسا کچھ نہیں ہوا
دوسری بات یہ ہے کہ کابل انتظامیہ ہر وقت خود کو بااختیار باور کراتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ ہم ہی اصل مالک ہیں -پھر یہ بھی کہ جرگہ ہی اصل فیصلہ کامالک ہے تو اگر جرگہ یاانتظامیہ کو کوئی اختیار حاصل ہے تب تو کسی بیرونی دباو یااعتراض کاسوچنابھی غلط ہے -پھر یہ متضاد بیانیہ کیا معنی رکھتاہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ آسٹرالیا ہو یا کوئی اور ملک وہ قیدیوں کو رہا نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ بتارہے ہیں کہ انہوں نے ہمارے فوجی مارے ہیں اور جا بہ جا ہمارے افراد اور مراکز پر حملوں میں ملوث ہیں-اب یہ کتنی بھونڈی اور عقل ودانش سے عاری بات ہے-یہ ممالک جو گزشتہ دوعشروں سے یہاں مقیم تھے اور جنھوں نے افغانستان پر ہجوم لاڈالاتھا اور استعماری پنجے گاڑلیے تھے کیا یہ یہاں پر عوام اور مجاہدین کو حلوے اور مٹھائیاں کھلارہے تھے جس پر مجاہدین نے ان پر حملہ کیا؟
امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ کیا یہ لوگ افغانستان میں تعمیر وترقی کی خاطر اور یہاں کے لوگوں کی زندگی محفوظ کرنے کےلیے کوئی پھول اور پودے لگانے آئے تھے کہ اب انہیں صحیح طرح سے قدردانی نہ کرنے کا گلہ ہے؟
دوعشرے مسلسل جنگ ہوئی ہے -دونوں فریق نے اپنی بساط کی حد تک ایک دوسرے کو بھرپور زیر کرنے کی کوشش کی ہے-ممکنہ حد تک ہر ایک نے وسائل اور ذرائع کااستعمال کیا ہے-دونوں نے اپنے مخالف پر حملہ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا ہے-ایسے میں یہ کہنا کہ ہم پر حملہ ہواہے بالکل غلط اور خلاف عقل ہے اور کوئی جواز نہیں رکھتا
آخری بات یہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی کامعاملہ بیرونی ایجنڈے پر التوا میں دھکیلنا جہاں اپنی بااختیار ہونے کی نفی کرتا ہے وہیں اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت ہے اور بیرونی مداخلت افغانستان کے کسی فرد کو برداشت نہیں ہے-اگر بیرونی مداخلت صرف ان بے بنیاد باتوں پر قائم رہے گی پھر تو امارتِ اسلامیہ بھی اپنی ملت کے رو برو اس بات کی ذمہ دار ہوگی اور ان بیرونی قوتوں کو نے ملت کا جوناحق خون بہایا ہے ان کے بارے میں سوال کرے گی جس کے لیے پھر امارتِ اسلامیہ مجبور ہوگی کہ کوئی ایسی پالیسی تشکیل دے جس کا بیرونی قوتیں تحمل نہیں کرسکیں گی؛ اس لیے اس سارے معاملے میں انتہائی سنجیدگی سے کام لینا ضروری ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے