تحریر: سیدافغان
فروری ۲۹  کوقطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخ ساز معاہدہ ہوا- جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ طالبان کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدی اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان کے ہانچ ہزار قیدی رہاہونگے-یہ پورا عمل دس دنوں میں مکمل ہوگا اور ٹھیک دس دن بعد انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونگے- اس طرح سے حقیقی امن کا قیام ممکن ہوگا۔
دس دن گزر گئے تو پہلے کابل انتظامیہ نے یہ بہانہ ڈالا کہ اتنے بڑے پیمانے پر قیدیوں کی رہائی اور اتنے کم دن میں کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے بڑاوقت درکار ہے-یہ اگر چہ واضح بہانہ تھا اور کوئی جواز نہیں رکھتا تھا لیکن مان لیا گیا-مہینہ گزرا تو پھر ایک اور بہانہ یہ کرڈالا کہ جب تک جنگ بندی نہ ہو اس وقت تک رہائی ممکن نہیں ہے-اب یہ بات جتنی بے بنیاد تھی اتنی ہی امن عمل میں رخنے ڈالنے والی تھی۔ ایک طرفہ جنگ بندی کااس کے علاوہ اور کیا معنی ہوسکتے ہیں کہ ہم سر نڈر کریں گے؟ اور سرنڈر ہونے کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-جن کے ہاں تمھاری نشو نما ہوئی ہے ان سے ہم نے اپنا لوہا منوالیا اور تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ ہم انہیں زیر کردیں گے-
بہر حال کچھ دباو کا نتیجہ تھا کہ رہائی کاعمل (سست روی کے ساتھ ہی سہی)شروع ہوا -چار مہینے کی طویل مدت میں بمشکل چار ہزار سے کچھ اوپر قیدی رہا ہوئے-کابل انتظامیہ کے اعداد وشمار کے مطابق صرف چارسو قیدی رہ گئے تھے-ان کے لیے کابل انتظامیہ نے بڑی تاخیر کے بعد یہ ڈرامہ رچایا کہ قوم کاجرگہ فیصلہ کرے گا اور جرگہ بلا لیا گیا-سینکڑوں لوگوں کا یہ جرگہ کوئی جواز رکھتا تھا یا نہیں؟ اس جرگہ میں قوم کو کتنی نمائندگی دی گئی تھی؟ خود وہاں بیٹھے لوگوں کو بولنے کا کس حد تک اختیار تھا؟ قطع نظر ان سارے سوالات کے ہمارے سامنے جو اعلامیہ آیا اس میں تمام شرکائے جرگہ کے اتفاق سے قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہوچکا تھا-اس لیے اب تو کابل انتظامیہ کو بڑی پھرتی دکھانی چاہیے تھی اور جلد سے جلد سے اس عمل کو مکمل کرنا چاہیے تھا- تاکہ جلدی سے بین الافغانی مذاکرات شروع ہوکر جلد سے جلد افغانستان میں جاری کشمکش انتہاء کو پہنچ جائے اور افغانستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق ایک سچا اور حقیقی اسلامی نظام قائم ہوجاے اور امن کے خواب شرمندہ تعبیر ہوجاے-لیکن!
کابل انتظامیہ نے انتہائی ڈھٹائی سے اس مسئلہ کو پس پشت ڈال کر بالکل نئی بحثیں اٹھائی-کبھی ایک کہتاہے کہ مذاکرات کو بین الافغانی کا نام دینا درست نہیں یہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہیں اور کبھی کوئی اور کہتا ہے کہ طالبان مذاکرات نہیں چاہتے انہیں تو بس اقتدار کی ہوس ہے وغیرہ وغیرہ-
یہ بحثیں جہاں انتہائی غیر سنجیدگی کی دلیل ہے وہیں اپنے تئیں ان کے بہانوں کی بھی انتہاء ہے-ظاہر ہے ان کا آخری حربہ یہی لویہ جرگہ تھا جب وہاں سے منظوری آئی تو پھر قیامِ امن میں خواہ مخواہ دیر کیونکر ہورہی ہے؟خود انتظامیہ کے رئیس نے اسی جرگہ کو آخری آپشن اور فیصلہ کامالک قرار دے دیاتھا تو پھر اس عمل میں ٹال مٹول کاکیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ معاہدہ کے مطابق چلنا ہی امن وآشتی کا ضامن ہے اگر اس سے سرمو انحراف بھی ہوگا تو یہ سارا کیا دھرا بے معنی ہوکر رہے گا-اور دیکھاجائے تو معاہدہ میں جگہ جگہ اور وقتا فوقتا رکاوٹیں کھڑی کرنا کابل انتظامیہ کا ہی کارنامہ ہے جس سے باز آنا چاہیے ورنہ تو افغان ملت کے خون بہانے کےتسلسل کی ذمہ داری ہمیشہ کی طرح ان پر ہی عائد ہوتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے