تحریر: ابومحمدالفاتح

قطر معاہدہ کے مطابق امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ نے بالترتیب۱۰۰۰اور۵۰۰۰ قیدی رہاکرنے تھے -امارتِ اسلامیہ نے ہمیشہ کی طرح وعدہ کی پاسداری،امن کے قیام اور شفقت کابرتاؤ کرتے ہوئے اپنے ذمہ کے ایک ہزار قیدی عید کے بابرکت موقع سے پہلے پہلے رہاکردئیے-جبکہ کابل انتظامیہ نے بھی حسبِ عادت امن عمل کو سبوتاژ کرنے میں پوری توانائی صرف کردی-حیل وحجت اور بے جا بہانوں سے چار ہزار چھ سو قیدی رہاکرکے بقیہ چارسو کی رہائی کو ایک گھمبیر مسئلہ بنایا-انتظامیہ کے سربراہ نے امارتِ اسلامیہ کی امن دوست پالیسی کے برعکس بیان جاری کیا کہ ان چارسو قیدیوں کے معاملہ پر لویہ جرگہ طلب کریں گے اور فیصلہ انہیں کے سپرد کریں گے-اس جرگہ کامقصد موصوف نے یہ بتایا کہ ان قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی قانونی چارہ جوئی کی جائے، گویا بقیہ قیدی غیر قانونی طور سے رہاہوئے ہیں اور اب اس قلیل تعداد کے لیے قانون کی ضرورت پڑگئی-حد ہوتی تضاد کی! بہر حال! سات اگست کو جرگہ منعقد ہوا -کثیر تعداد میں لوگوں کو جمع کیاگیا -بقول سربراہ یہ سب وہ لوگ ہیں جو آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے-گویا دانش کی ان پر انتہا ہے اور انتظامیہ کی ساری جمع پونجی یہی ہے-لیکن ابتدائی سیشن میں ہی فیصلہ کرنے والوں کے دانش کدہےمیں تاریخ رقم کردی گئی۔عورتوں نے ایک دوسرے کو بالوں سے پکڑ کر زمین پرگرایا،چیخ وپکار اور شور شرابا کیا گیا۔-یہ جس ملت کی نمائندگی کے دعویدار ہیں اس ملت میں تو خاتون کی اتنی عزت ہے کہ ایک خاتون کو محض میلی آنکھ سے دیکھنے پر دشمنیاں جنم لیتی ہیںاور اس کی عزت وناموس کے لیے جانوں کی قربانیاں پیش ہوتی ہیں -مگر نام نہاد اور زبردستی مسلط ان نمائندوں نے خواتین کو سرِ عام لڑواکر افغانی عزت وحیا اور غیرت کاجنازہ نکالنے کی کوشش کی- غیر سنجیدگی اور کورے پن کے لیے یہی ایک واقعہ کافی تھا۔مگرانہوں نے توتماشا دکھانا تھا-ہمیں جو شخص کو افلاطون اور سقراط باورکرایاجاتاہے اور جس کو اب زور زبردستی سربراہ مقرر کیاگیاہے وہ شخص اپنے صدارتی خطاب میں الفاظ،امثال اور اشعار کی ایسی درگت بناتاہے کہ الامان والحفیظ- الفاظ کا چناؤ دیکھو تو الگ سے پریشانی-اشعار سنو تو تو شعراء کو ماتم کرتے ملتے ہیں-افغانی تہذیب پر گفتگو کرے تو شرم کے مارے وہ خود تو نہیں البتہ سامنے بیٹھا شخص شرماجاتاہے-کسی تاریخی شخصیت کاتذکرہ کرے تو لگتاہے کہ جیسے موصوف نے پہلی بار زندگی میں اس کانام سناہے- موصوف کی تقریر کے دوران ہی انہیں کا بلایا ہوا انہیں ایک معزز مہمان اٹھ کھڑا ہوا اور موصوف کے خطاب کے ایک نکتہ پر اعتراض کیا، آرڈر جاری کیاگیا کہ اسے باہر کردیاجائے -وہ بیچارہ ایک حق بات کی پاداش میں بے عزت کیاگیا-بازوؤں اور پسلیوں سے پکڑ پکڑ کر زبردستی باہر دھکیلاگیا، جو یہ پیغام دیتاتھا کہ لویہ جرگہ،فیصلہ اور دانش وبصیرت کی باتیں محض باتیں ہی ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی دانشور ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کااہل-یہاں کوئی سنجیدگی ہے اور نہ ہی سنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت -یہاں اظہار رائے کاحق ہے اور نہ ہی کسی کو اختیار-یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جسے صرف سننا پڑے گا-اور زبردستی مسلط کیاجائے گا- یہ آرزو ان کی پوری ہوگی یا نہیں ماضی کی تاریخ سامنے ہے کہ یہ بھی محض خیال ہی ثابت ہوگا- بہر کیف! یہ پہلے دن کے پہلے سیشن کے ابتدائی دور کی ہلڑ بازیاں تھیں -آگے دیکھیے ہوتاہے کیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے