ترکی میں شعبہ اُردو کے پروفیسر  ڈاکٹر خلیل طوقار  کا کہنا ہے کہ بابری مسجد  کے کھنڈرات پر ہندو مندر کی تعمیر کیا جانا ہندو قومیت پرستوں کی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔

ایدودیہ انٹیک شہر میں شہنشاہتِ بابر کے دور میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے واقع ہونے والا  ایک طویل عرصے سے ہندو اور مسلم طبقے کے درمیان  ایک متنازعہ معاملہ ہے۔

انادولو ایجنسی کو اس موضوع پر انٹرویو دینے والے استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے  چیئر مین پروفیسر خلیل طوقار  کا کہنا ہے کہ بھارت میں ویں صدی میں تعمیر کردہ تاریخی بابری جامع مسجد کے کھنڈرات پر مندر کی تعمیر ہندو قوم پرستوں کی مسلمانوں  سے انتقام لینے کی ایک کھلی چال ہے اور یہ اس سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے درپے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ کیونکر اس مقام کو بل ڈوزروں سے منہدم کرتے ہوئے فوری طور پر یہاں پر مندر کھڑا کرنے کے اسباب کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

اس مقام پر بابری مسجد سے قبل ایک مندر واقع ہونے کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہ ہونے   کی توضیح کرتے ہوئے ترک پروفیسر کا کہنا تھا کہ اس قسم کے دعوے’انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت چلاؤ‘ پالیسیوں  کے نتیجے میں ہندو۔ مسلم فسادات کے طول پکڑنے والے  ایک دور میں سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دولت بابر کے بانی بابر شاہ کے حکم پر میر باقی نے سن  1528 میں اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔

یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے 28 سال قبل انتہا پسند ہندوں کی طرف سے شہید کی جانے والی بابری  مسجد کے مقام پر مندر کا سنگ ِ بنیاد 5 اگست کو رکھا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے