کابل انتظامیہ کی جانب سے آج کابل میں ایک اجلاس منعقد ہورہا ہے ، جسے وہ لویہ جرگہ کہتے ہیں۔ کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے عیدالاضحی کے موقع پر کہا تھا کہ 400 قیدی رہا کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ اس کے لئے وہ ایک جرگہ طلب کریں گے تاکہ ان کی رہائی کے لئے کوئی قانونی راستہ تلاش کیا جاسکے۔

چونکہ وہ 4600 قیدیوں کو غیر قانونی طور پر رہا کر سکتے ہیں ان کے لئے جرگہ طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن 400 قیدیوں کے لئے غیر قانونی جرگہ سے قانونی راستہ تلاش کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہ ان کی وہ متضاد پالیسی ہے جو وہ خود بھی اس کو نہیں سمجھتے ہیں۔

بہر حال جرگے کی مخالفت اب اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کی اپنی قانونی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی جرگہ کے خلاف مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشرف غنی اور ان کی ٹیم نے امن کے خلاف جو پالیسی اختیار کی ہے، اس میں تنہائی کا شکار ہے۔

ایک چھوٹے مسئلے پر اس طرح کے حساس اور مختصر وقت میں قومی جرگہ طلب کرنا اور اس کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانا، لوگ پہلے ہی جان چکے تھے کہ ان کا مقصد 400 قیدیوں کو رہا کرنا نہیں بلکہ اپنے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنا، جنگ کو طول دینا، امن عمل کو سبوتاژ کرنا اور بین الافغان مذاکرات کو درہم برہم کرنا تھا۔

گزشتہ روز اشرف غنی نے واضح طور پر کہا کہ کل ایک تاریخی دن ہے اور مشاورتی جرگہ کا اعلامیہ امن مذاکرات کرنے والی ٹیم ، طالبان اور عالمی برادری کے لئے واضح پیغام ہوگا۔

جس کا مطلب ہے کہ چار سو قیدیوں کی رہائی کا معاملہ صرف بہانہ ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ اس جرگے کے ذریعے ایک ایسا اعلامیہ جاری کیا جائے گا جو پہلے ہی اشرف غنی اور ان کی ٹیم نے اس کا خاکہ تیار کیا ہے۔

امارت اسلامیہ نے پہلے ہی دشمن کے ان تمام اقدامات کی مذمت کی ہے جو امن عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے یا ناجائز اقتدار کی مدت کو بڑھانے کے لئے قومی عمل سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

آج کے جرگہ کے حوالے سے ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چار سو قیدیوں کی رہائی سے متعلق جرگہ طلب کرنا اور اس سے افغان عوام کی امنگوں کے خلاف ناجائز فائدہ اٹھانا قوم کے زخموں کا مداوا کر سکتا ہے اور نہ ہی ایسا جرگہ قوم کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ جس طرح کابل انتظامیہ ناجائز ہے ، اسی طرح اس کے ناجائز اقدامات بھی بے بنیاد اور غیر قانونی ہیں۔ وہ تمام اقدامات جو افغانستان کی آزادی، اسلامی نظام کے نفاذ اور افغان عوام کی توقعات کے برخلاف ہوں، وہ قوم کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔

دوحہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی اور پھر بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کا پر امن اور معقول حل تلاش کرنا افغان عوام کی خواہش اور آرزو ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے ساتھ ہم آہنگی موجود ہے، اس کے بغیر تمام ٹیڑھے راستے تلاش کرنا ترکستان کی طرف جانے کے مترادف ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے