تحریر:سیدافغان
قطر معاہدے کے مطابق امارتِ اسلامیہ نے عید سے پہلے پہلے کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدی مکمل رہاکردئیے-جبکہ اس کے مقابل کابل انتظامیہ نے کل پانچ ہزار میں سے چار ہزار سے کچھ اوپر رہاکیے ہیں اور باقی ابھی تک قید ہیں جن کے بارے میں انتظامیہ مسلسل حیلہ جوئی اور لیت ولعل سے کام لے رہی ہے
عید کے پہلے روز انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بقیہ قیدیوں کے چونکہ جرائم بہت بڑے اور گھناونے ہیں اس لیے انہیں رہا کرنے کااختیار میرے پاس نہیں ہے -اس مقصد کے لیے مشران کاجرگہ پوری قوم سے طلب کریں گے اور فیصلہ ان کے سپرد کریں گے-اگر تو وہ رہاکرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ورنہ قید میں ہی رہیں گے-اشرف غنی کے اس بیان پر جہاں قوم کے نشیب وفراز سے شدید ردعمل آیا وہیں اس کے سرپرستِ اعلی امریکا نے بھی اس جرگہ طلبی کو مسترد کیا
میڈیا کے ذریعہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ یہ جرگہ رواں ہفتہ میں بلایاجاے گا-تاریخوں کے بارے میں بھی کافی گفت وشنید زوروں پر ہے-لیکن سوال یہ ہے کہ کیایہ واقعی اتنا گھمبیر مسئلہ ہے کہ اس کے لیے جرگہ طلب کیاجائے؟ کیا حقیقت میں ملک وملت کو ان قیدیوں سے کوئی ایسااجتماعی، ملی اور سماجی خطرہ پیش آنے والا ہے جس کی وجہ سے شروع ہی سے سنجیدگی کے ساتھ زعمائے ملت کے مشورہ پر عمل کرنا ضروری ہے؟
سادہ ساجواب یہ ہے کہ قوم کو خطرہ ہے اور نہ ہی مسئلہ اتناگھمبیر ہے- حق اور کڑوا سچ یہ ہے کہ کابل انتظامیہ اور ہوس کے پجاریوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بس یہ ایک گر آزمانا ہے اور یہی ایک چیز انہیں دباو رڈالنے کے لیے ملی ہے-گزشتہ دنوں جب قطر دفتر کے رکن محمد نبی عمری صاحب سے یہی سوال پوچھاگیا کہ ان قیدیوں کی رہائی سے بعض لوگ یہ خدشہ ظاہرکرتے ہیں کہ یہ واپس لڑائی کے میدان میں چلے جائیں گے اور حالات پر اس کابرااثر پڑےگا تو جواب میں محترم عمری صاحب نے بہت ہی زبردست بات کہی کہ پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی چار پانچ سو بندوں سے جنگیں جیتی نہیں جاتیں -دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے افراد کو سختی سے واپس آنے سے منع کیاہیں تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس مجاہدین اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ ان قیدیوں کی الحمدللہ ضرورت ہی نہیں پڑےگی
غور کیاجائے تو قیدیوں کی رہائی سے امن کاقیام معلق ہے؛ اس لیے یہ تو خطرے کی بات نہیں خوش آئند ہے البتہ جہاں خطرہ تھا یاہے اس کے لیے بلاشبہ جرگہ بلانے کی ضرورت تھی اور ہے لیکن کابل انتظامیہ نے کبھی تصور بھی نہیں کیاہے
امریکاکے ساتھ اپنے ملک کے معاملات طے کرنے پر اور انہیں اپنی قوم سپردگی پر یقینا جرگہ بلانے کی ضرورت تھی مگر جرگہ نہیں بلایاگیا-جس عبداللہ کو خائن، مکار، جھوٹااور دنیابھر کابدترین شخص خود انتظامیہ کے سربراہ نے قرار دیاتھا اس سے ساز باز اور نام نہاد حکومت میں پچاس فیصد حصہ دینے اور برابری کی حیثیت دینے میں زعمائے ملت اور سربراہان کی رای طلبی از حد ضروری تھی مگر ایسانہ ہوسکا یا نہیں کیاگیا- جورشید دوستم خود اشرف غنی کے ہاں سے راندہ درگاہ ہوکر انسانیت کے رتبہ سے بھی گرگیاتھا -قتل وغارت،فتنہ وفساد،دجل وفریب اور انسانیت سوز جرائم سے بڑھ کر ایک اسی سالہ بوڑھے اور وہ بھی اسی انتظامیہ کے سابق عہدیدار کے ساتھ جنسی تشدد اور وہ بھی اجتماعی شکل میں جیسے گھناونے جرائم پر اترآیاتھا-بقول اس کے اسے پوری قوم کازمام ہاتھ میں دینے اور مارشل جیسا عالمی عہدے کے مذاق اڑاتے وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ رہبرانِ قوم اور رہنمایانِ ملت سے پرسشش کی جائے لیکن آنکھیں بند کر کے حقائق کو پاوں تلے روندتے ہوئے وہاں کسی جرگہ کی ضرورت محسوس نہیں کی-ان جیسے بہیترے ناگفتہ بہ حالات سامنے آئے مگر کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی -اور جب بات امن کے قیام کی خاطر اپنے ہم وطن اور غیور ومظلوم ملت کو جیلوں سے رہائی کی آئی تو جرگہ یاد آیا
ہمارے ایک بہت ہی معزز بزرگ فرماتے ہیں کہ اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کے پاس آزمانے اور دباو ڈالنے کو یہی قیدیوں کی رہائی اور اس میں شش وپنج اور قیل وقال سے کام لینے کاایک حربہ ہے اس لیے وہ اس کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح دیگر مواقع اور حالات میں امارتِ اسلامیہ سرخ رو ہوئی بالکل اسی طرح اب بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور یہ بھی کہ رکاوٹ ڈالنے والوں کو صرف بوجھ ہی مقدر میں ملےگا