منگل چار اگست کی سہ پہر ہونے والے زور دار دھماکے کے نتیجے میں بیروت میں بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کا مقام مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اس کا شمار لبنان کے اہم ترین مقامات میں ہوتا ہے جو ریاستی خزانے میں مالی رقوم پہنچانے کا نمایاں ترین ذریعہ تھا۔ دھماکے کے بعد یہ مقام ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اس واقعے میں اب تک 135 افراد کی ہلاکت اور 5 ہزار سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

ابتدائی گھنٹوں کے دوران دھماکے کی وجوہات کے حوالے سے متعدد روایتیں سامنے آئیں۔ بعض نے اس کو ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے تشبیہ دی۔ بعد ازاں ایک نتیجے پر نیم اتفاق سامنے آیا کہ بندرگاہ کے گودام نمبر 12 میں موجود 2750 ٹن سے زیادہ امونیم نائٹریٹ کا دھماکا ہوا۔

دھماکے کے بعد بیروت آفت زدہ شہر میں تبدیل ہو گیا۔ دھماکا اتنا زوردار اور شدید تھا کہ اس کا لرزہ بیروت شہر سے باہر پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو بھی محسوس ہوا۔ یہاں تک کہ دھماکے کی گونج قبرص تک پہنچ گئی۔

لبنان کے اعلی سطح کے سیکورٹی ذرائع نے  بتایا کہ یہ دھماکا امونیم نائٹریٹ کے نتیجے میں ہوا ،،، یہ مواد بندرگاہ کے گودام نمبر 12 میں 2014ء سے موجود تھا۔ آج سے 6 سال قبل ایک بحری جہاز بیروت کی اس بندرگاہ پر پہنچا تو اس پر 2750 ٹن دھماکا خیز مواد امونیم نائٹریٹ پایا گیا۔ اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام مواد کو قبضے میں لیتے ہوئے گودام نمبر 12 میں رکھ دیا گیا تھا۔

مذکورہ ذرائع کے مطابق بیروت میں فوری امور کے جسٹس کو کئی بار تحریری مطالبہ ارسال کیا گیا کہ اس مواد کے خطرناک ہونے کے پیش نظر اسے یہاں سے منتقل کر دیا جائے تاہم دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ جس جہاز پر یہ دھماکا خیز مواد بیروت لایا گیا تھا اس کے مالکان نے چند ماہ بعد جہاز کے عملے کو آزاد کروا لیا۔

بیروت میں بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے اس مقام پر بعض دیگر ذرائع نے  بتایا کہ مذکورہ بحری جہاز 2014 سے گودام نمبر 12 پر موجود ہے۔ ذرائع نے اس کی موجودگی کے حوالے سے کئی بار استفسار کیا گیا مگر کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح بیروت ہاربر مینجمنٹ کونسل کے سربراہ حسن قریطم نے  بتایا کہ 2014ء میں موزمبیق سے آنے والا ایک بحری جہاز بیروت پہنچا۔ اس جہاز کی منزل بیروت نہیں تھی تاہم جہاز میں تکنیکی خرابی کے سبب وہ بیروت میں لنگر انداز ہونے پر مجبور ہو گیا۔

قریطم نے مزید بتایا کہ "بعد ازاں عدالتی فیصلے میں اس جہاز کو ضبط کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس پر لدے مواد کو گودام نمبر 12 میں منتقل کر دیا گیا تاہم ہمیں اس مواد کے بارے میں علم نہیں تھا”۔

البتہ قریطم کا بیان انہیں قانونی اور ملازمتی ذمے داری سے سبک دوش نہیں کرتا۔ بالخصوص جب کہ بعد ازاں کسٹم کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے فوری امور کی عدالت کو بھیجی گئی تحریروں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کئی ذمے داران کو اس خطرناک مواد کی موجودگی کا علم تھا۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم جوسٹیسیا کے سربراہ ایڈوکیٹ ڈاکٹر پال مرقص نے میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ "عالمی سلامتی کونسل کے فیصلے سے اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں فصل کے تحت ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ کمیٹی دو روز کے اندر اپنا اجلاس منعقد کرے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لبنانی سطح پر تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا”۔

پال مرقص نے اس بات پر سخت حیرانی کا اظہار کیا کہ اس اہم اور سنگین معاملے کو فوری امور کی عدالت کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا جب کہ یہ معاملہ ریاست کے مفاد، سلامتی اور امن عام سے متعلق ہے۔ سیاسی سطح پر اس کا کم از کم حل یہ ہے کہ متعلقہ وزراء اور ڈائریکٹرز فوری طور پر خود سے مستعفی ہو جائیں”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے