اس حال میں کہ امارت اسلامیہ نے بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور تنازع کے پرامن حل کی جانب مخلصانہ اقدامات اٹھائے ہیں، اس کے برعکس کابل انتظامیہ کے حکام  نئے بہانے ڈھونے کی لگاتار کوشش کررہا ہے ،تاکہ  اس عمل کو مؤخر کریں۔

امارت اسلامیہ نے اگر ایک جانب عید کے ایام میں یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا، دوسری طرف طے شدہ معاہدے کے مطابق تمام قیدیوں کو رہا کردیا۔ امارت اسلامیہ نے اس حوالے سے حسن نیت کا اظہار کرتے ہوئے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کردیا، اس شق میں اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے انجام دی۔

مگر کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے عیدالاضحی کی مناسبت سے اپنے بیان میں ایک بار پھر 400 قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا اور کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر لویہ جرگہ کا انعقاد کیا جائیگا۔

افغانستان کی تاریخ میں ہمیشہ لویہ جرگہ بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کے حل کی غرض سے منعقد کیے جاچکے ہیں۔ موجودہ افغانستان کے کم ازکم تین صدیوں کی تاریخ میں ہمارے چند لویہ جرگے تھے، جو ملک پر بیرونی جارحیت سے دفاع، حکمران کے انتخاب  وغیرہ اہم مسائل کے حوالے سے منعقد کیے گئے ہیں۔ مگر گذشتہ 20 برسوں میں قانونی پس منظر سے محروم  کابل انتظامیہ کے حکام نے بار بار کوشش کی ہے، تاکہ لویہ جرگہ کے عنوان سے ناجائز فائدہ اٹھائے، انہوں نے ہر بار چند محدود سرکاری عہدیداروں اور کرائے کے افراد کو اکھٹے کرنے سے جرگہ کا نمونہ پیش کیا، جس کےہنگامی پروپیگنڈہ  کے علاوہ کوئی اثر اور نتیجہ نہیں تھا۔

صدارتی محل کے حکام  پرامن حل کی جانب شروع ہونے والے عمل کے سلسلے میں مکمل طور پر عوام کی امیدوں کے برعکس عمل کررہا ہے اور سیاسی مؤقف کے لیے ان کے پاس کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔ چند روز سے لویہ جرگہ کے انعقاد کے موضوع سے عوام کے ذہنوں کو مشغول رکھنے کی کوشش کررہا ہے، تاکہ بین الافغان مذاکرات کے عمل کو مؤخر کریں۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے موضوع کے چھان بین کی غرض سے لویہ جرگے کے انعقاد کا کوئی معنی ہے اور  نہ ہی اس کے جواز  کا مبنی ہے۔

امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیے اور اس حوالے سے   طے شدہ شقوں پر عمل پیرا ہے۔ مگر افغان قوم چوکنا رہے اور اس نازک موڑ میں ان افراد کی شناخت کریں،جو اپنے ذاتی  مفادات اور غیرقانونی اقتدار کے دوام کی خاطر پوری قوم کی امیدوں سے کھیل رہا ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے تاخیر کےلیے مختلف بہانے ڈھونڈ رہے ہیں،مگر ان کا واحد مقصد یہ ہے، تاکہ  جارحیت اور بحران کی توسیع کے لیے راہ ہموار کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے