امریکا کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ افغانستان کی جیلوں سے رہائی کے بعد افغان تحریک طالبان کے 200 قیدیوں کی نظر بندی کے لیے ایک مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ اس تجویز کا مقصد کابل اور طالبان کے درمیان امن بات چیت کو معطل کر دینے والا جمود توڑنا ہے۔ یہ بات اعلی سطح کے تین ذرائع نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتائی۔

ذرائع کے مطابق سینئر امریکی سفارت کاروں نے رواں ہفتے طالبان اور افغان حکومت کے سامنے ایک تجویز پیش کی۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بعض شدید اور مہلک ترین حملے کرنے کے الزام میں قید طالبان جنگجوؤں کو ایک ایسے مقام پر رکھا جائے جو فریقین کے زیر نگرانی ہو۔

امریکی سفارت کار فریقین کے بیچ امن بات چیت شروع کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ قیدیوں کے معاملے کے سبب یہ بات چیت التوا کا شکار ہو گئی تھی۔ افغان حکومت اُن 5000 کے قریب طالبان قیدیوں کی آخری کھیپ کو رہا کرنے کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہے ،،،، جن کی رہائی کو طالبان تحریک امن بات چیت شروع کرنے کے لیے لازمی شرط قرار دے چکی ہے۔

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے جمود توڑنے کے لیے طالبان تحریک کے رہ نماؤں اور افغان صدر اشرف غنی پر دباؤ بڑھایا تھا۔ یہ پیش رفت خلیل زاد کے رواں ہفتے کابل کے دورے کے دوران سامنے آئی۔

افغان حکومت نے ابھی تک تقریبا 400 طالبان قیدیوں کو اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے۔

ایک مغربی سفارت کار کے مطابق "امریکا اور اس کے حلیف اس بات پر متفق ہیں کہ طالبان کے چند جنگجوؤں کو آزادانہ طور پر باہر نکلنے کی اجازت دینا کسی طور مناسب نہیں ہے .. افغان سیکورٹی فورسز نے ان افراد کو انسانیت کے خلاف بعض بدترین جرائم کے ارتکاب کے سبب گرفت میں لیا تھا”۔

افغان حکومت بقیہ 200 سے 400 طالبان قیدیوں پر الزام عائد کرتی ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں کے دوران سفارت خانوں، عوامی مقامت اور سرکاری دفاتر پر حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہزاروں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے