ترکی کے شہراستنبول میں جمعہ کی صبح ہزاروں افراد نے تاریخی آیا صوفیہ جامع مسجد میں 86 سال کے بعد پہلی مرتبہ عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت نے جولائی کے وسط میں ایک عدالتی حکم کے بعد آیا صوفیہ عجائب گھر کو دوبارہ جامع مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔

صدر ایردوآن کے اس فیصلے پر مسیحی دنیا نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اس کو اکیسویں صدی میں مذہبی آہنگی کے نئے آدرشوں کے منافی قراردیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ترک صدر نے اپنے مذہبی ووٹ بنک کی حمایت کے حصول کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے ایک بیان میں کہا کہ ’’انھیں ترک حکام کے فیصلے پر شدید افسوس ہوا ہے۔انھوں نے آیا صوفیہ کی حیثیت کسی قسم کے بحث ومباحثے کے بغیر ہی تبدیل کردی ہے۔‘‘

ان کے بہ قول:’’آیا صوفیہ فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہےاور یہ صدیوں سے یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطے کا ایک منفرد مقام رہا ہے۔اس کی عجائب گھر کی حیثیت اس کے تاریخی ورثے کی عالمگیر فطرت کی عکاسی کرتی ہے اور یہ چیز اس کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی طاقتور علامت بناتی ہے۔‘‘

لیکن اس طرح کے بیانات اور ترک حکومت کے فیصلے پر تنقید کے باوجود ترکی اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے کروڑوں مسلمان آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی کے فیصلے پر خوش ہیں اور وہاں عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرنے کے لیے آنے والے مسلمانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔

ترکی کے علاوہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی آیا صوفیہ میں عید کی نماز ادا کرنے کے لیے آئے تھے۔ان میں مصر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد اعصام بھی شامل تھے جو بیوی،بچوں کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ’’اس علامتی چیز سے مسلمان اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی لاگو کریں گے۔سب سے بڑی امید تو یہ ہے کہ اسلام صرف مساجد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ حقیقی زندگی کا بھی حصہ ہوگا۔‘‘

ترکی کے بحیرہ اسود کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک دکان دار نوری قراچان کا کہنا تھا کہ ’’آیا صوفیہ کے مسجد کی حیثیت سے دوبارہ کھلنے سے ملک میں بہتری آئے گی۔‘‘نوری کاروں کے فاضل پرزہ جات بیچتے ہیں۔ان کی رائے میں ’’آیا صوفیہ کی مسجد سے عجائب گھر میں تبدیلی کے بعد ملک پر ایک طرح سے لعنت برس رہی تھی مگر اب اس کی دوبارہ مسجد میں تبدیلی سے یہ لعنت دور ہوجائے گی۔‘‘

مسجد میں تبدیلی کے بعد آیا صوفیہ میں غیر مسلم سیاحوں کا داخلہ بند نہیں کیا گیا ہے اور وہ ان کے لیے کھلی ہے۔تاہم اس کے بعض حصوں کو بند کردیا گیا ہے جبکہ پہلے وہاں سیاح جاسکتے تھے۔اب اس تاریخی عمارت میں داخل ہونے کے لیے مرد وخواتین کو الگ الگ قطاریں بنانا پڑتی ہیں۔ البتہ عمارت کے اندر وہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔نیزمسجد میں خواتین اپنے سر کو ڈھانپ کررکھنا ہوگا۔

عمارت کے سنگ مرمر کے فرش پر اب سبز رنگ کا قالین بچھا دیا گیا ہے اور مسیحی عقائد کے مطابق کندہ کاری اور نقوش کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔کارنیل یونیورسٹی میں فن تعمیرات کے شعبہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ایسریٰ آکجان نے آیا صوفیہ کی عمارت میں اس قسم کی تبدیلیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے وہ اپنی تاریخی اہمیت کھو دے گی۔اس سے عمارت کے فنی پہلو اور ڈیزائن کی تاریخی حیثیت معدوم ہوکر رہ جائے گی۔

واضح رہے کہ یونیسکو نے آیا صوفیہ کی عمارت کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔اس کو چھٹی صدی عیسوی میں آرتھو ڈکس عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔1453ء میں جب عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ (اب استنبول) شہر کو فتح کیا تھا تو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔بعض روایات کے مطابق انھوں نے آرتھوڈکس چرچ سے یہ عمارت خرید کی تھی اور پھر اس کو مسجد میں تبدیل کیا تھا۔

جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد 1934ء میں آیا صوفیہ کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا لیکن گذشتہ ماہ ترکی کی عدالت عالیہ نے اس کی عجائب گھر کی حیثیت کالعدم قرار دے دی تھی۔اس کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن نے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھااور24 جولائی کو 86 سال کے بعد پہلی مرتبہ وہاں جمعہ کی نماز ادا کی گئی تھی۔نمازیوں میں خود ترک صدر بھی شامل تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے