تحریر: ابومحمد الفاتح
یہاں دو فریق ہیں -ہر ایک کو ملت کی نمائندگی کادعوی ہے-ہر ایک خود کو عوام کا نمائندہ سمجھتاہے-ہر ایک اپنے دعوے میں اس کااظہار کرتاہے-میڈیامیں ہر ایک کی طرف سے قوم کی ہمدردی پر مبنی بیانات جاری ہوتے ہیں- دنیاکو دونوں باور کرارہے ہیں کہ ہم ہی اس قوم کے اصل فرزند اور خادم ہیں -لیکن عمل کے میدان میں دونوں کا کردار کیارہا ہے؟ قوم کسے پسند کرتی ہے؟ملت بھی عملا کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ عوام کس کو چاہتے ہیں؟ اپنے اپنے موقف میں کون اب تک استقامت سے کھڑا ہے؟یہ قابل غور ہے۔
ایک فریق کا نام ہے کابل انتظامیہ اور دوسرے کو اقوامِ عالم امارتِ اسلامیہ کے نام سے جانتی ہیں۔ پہلے کابل انتظامیہ کے کردار کو دیکھیے-پوری ملت کے ساتھ ان کا برتاؤ کیسارہاہے؟ کل مدت کو چھوڑئیے تازہ واقعات کااندازہ لگا لیجیے-صرف عید الفطر سے عید الاضحی تک کابل انتظامیہ نے اسی ملت کے جس کی نمائندگی کا انہیں دعوی ہے، سینکڑوں بے گناہ افراد مارے ہیں-اسی ملت پر کئی دفعہ بلاجواز بمباری کی ہے-اس ملت سے ایک ہی شہر میں دسیوں چوکیوں پر ٹیکس کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی بٹوری ہے-آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام ماتحت افراد نے کیاہوگا؟ لیکن یہ اس لیے معقول بات نہیں ہے کہ ماتحت کامحاسبہ کرکے اپنے کیے کی سزا دے لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں ہے-
محاسبہ نہیں کرتے نہ کریں، یہ تو حق بنتاہے کہ ملت کے زخموں کے فوری مداوا کے طور پر کوئی شدید مذمت کریں، لیکن بے ہمتوں سے یہ بھی نہ ہوا-اور اس سے بھی کمتری کی بات یہ کہ جہاں مذمت کی بھی تو ایسے بھونڈے انداز میں کہ اس سے کرنے والوں پر تو کوئی فرق نہی پڑا البتہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی-
احساس یہاں تک ختم ہوگیا ہے کہ جو افراد اسی کابل انتظامیہ کے اقتدار کی خاطر قربانی دے چکے ہیں، ان کے گھرانوں کی خواتین کو عزت کے سودا کے بدلے کچھ ٹکے امداد کے دیے جاتے ہیں- جو لوگ ان کی خاطر اپنے بدن کی ہڈیاں اور اعضاء قربان کرچکے ہیں، انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کیاہے-وہ معذور در درکی بھیک مانگ رہے ہیں اور دکان دکان کے چکر کاٹ رہے ہیں-
جبکہ دوسری طرف امارتِ اسلامیہ ہے جس نے ملت قوم کی تہذیب وثقافت کو تحفظ دینے کاوعدہ کیاہے، آج تک اسی پر قائم ہے اور خود بھی عملا اسی پر عمل پیرا ہے-ملت کو جہاں بھی جس کسی نے دکھ پہنچایا ہے شدید انداز میں مذمت کے ساتھ انتقام بھی لے کر دکھایاہے-اسی ملت کےغم اور درد کو پوری دنیا میں ہر فورم پر اٹھایا ہے -جہاں تک ان کی شنوائی ہوئی وہ ملت کی ایک مؤثر آواز بنی ہے-ملت کی ہر تکلیف میں وہ براہِ راست شریک ہے-قوم پر آنے والے ہر وار کے لیے بذاتِ خود ڈھال بنی ہے-اگر کہیں ٹیکس کے نام پر کوئی ایک آدھ روپیہ لیاہے تو انہیں مکمل تحفظ بھی فراہم کیاہے-آپ ایک سروے کرلیں، اس میں ڈرائیوروں سے کرید کرید کر سوال کریں۔ آپ کو امارت اسلامیہ کے حامی ومخالف سبھی یکساں نظر آئیں گے،لیکن امارت اسلامیہ کے شفاف نظام کے معترف سب ہی ہوں گے-آپ قوم کی محبت کو دیکھیں، تو جس دن معاہدہ ہوتا ہے اس دن پوری قوم کابل انتظامیہ کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود ہرجگہ بینرز اور سفید جھنڈیاں اظہار یکجہتی کے لیے نمودار نظر آتی ہیں-خارجی قوتیں اگر حدود سے تجاوز کریں تو یہی امارتِ اسلامیہ نہ صرف یہ کہ مذمت کرتی ہے بلکہ کل ۲۵ جولائی کی بات ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ذمہ داران تک معاملہ لے جایاجاتاہے اور اس طرح پر اسے اٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے باقاعدہ افراد تشکیل دئیے جاتے ہیں-افراد کی بات ہو تو جو فرد اس راہ میں جان کانذرانہ پیش کرے اس کے پورے گھرانے کی کفالت کا بیڑا اٹھاتی ہے-اس کے بال بچوں کی مالی امداد کے ساتھ ان کی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے-کوئی فرد اسی تعلق کی بنیاد پر قید ہوجائے تو کیس کو حل کرانا،وکیل کی فیسیں ادا کرنااور جیل کے اندر ممکنہ سہولیات دینے میں کردار ادا کرنا، یہ ساری خدمات دنیاکومعلوم ہیں-وفاداری اس حد تک کہ جب تک ہمارے قیدی بھائیوں کو رہائی نہ ملے تمھارے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں-ملک کے امن کے لیے اتنی کوششیں کہ اپنے ذاتی مفادات کاتصور تک نہیں کیا-جس وقت کابل انتظامیہ کرپشن میں سر تاپا ڈوبی ہے، عین اسی وقت امارت اسلامیہ کے کسی بھی فرد کے پاس اپنا ذاتی مکان کوئی ثابت نہیں کرسکتا-بس جو کچھ ہے وہ ملت کے لیے اور اجتماعی مفادات کے لیے ہے وبس-
اس تقابل کے بعد یہ فیصلہ مشکل نہیں کہ اس قوم سے وفاداری اور محبت کا دعوی کس نے کیا ہےاور اسے کون نبھائے گا۔

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے