رواں سال 29 فروری کو جب امارت اسلامیہ اور امریکہ نے دوحہ میں قبضہ ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تو امن کے مخالفین خصوصا ایوان صدر پر لرزہ طاری ہوا، وہ حواس باختہ ہوگئے اور منطق اور استدلال کی بجائے توہین ، تضحیک، تذلیل، الزامات اور جنگ کی دھمکیوں کی پالیسی اپنائی اور یہاں تک کہ مجاہدین کے خلاف جارحانہ کاروائیاں شروع کیں۔

اشرف غنی کی سربراہی میں امن کے مخالفین امن عمل کا یہ سنہری موقع ضائع کرنے، جنگ کو جاری رکھنے اور اپنے ناجائز مفادات کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے کوشش کر رہے ہیں۔ نام نہاد انتخابی مہم کے دوران اور اب مختلف مقامات پر اشرف غنی نے برملا کہا کہ "پانچ سال میں امن آجائے گا۔” ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اگلے پانچ سال تک افغان عوام پر مسلط رہیں گے اور ان کا قتل عام جاری رکھیں گے۔

اشرف غنی کا خیال تھا کہ اگر امریکی انتخابات میں ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن جیت گئے تو وہ دوحہ معاہدے کو ختم کردیں گے اور افغانستان پر قبضہ جاری رکھیں گے لیکن سی بی ایس ٹیلی ویژن کو ایک حالیہ انٹرویو میں جو بائیڈن نے اشرف غنی کے خیال کے برعکس موقف اختیار کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکی مفادات ان کے لئے اہم ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ افغانستان میں کون برسر اقتدار ہے اور حکومت کس طرح تشکیل دی جاتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں نہیں چاہتیں کہ خواتین کے حقوق کی جنگ کیلئے افغانستان میں فوج بھیجیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ سے تنگ ہے، اس نے یہاں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اور افغانستان پر ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن نہ صرف اس کو کامیابی نہیں ملی بلکہ اس کو امارت اسلامیہ کی قیادت میں افغان عوام کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہوا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ افغانستان میں فتح ناممکن ہے۔

امریکہ نے افغانستان میں اپنی شکست کا احساس کرتے ہوئے امارت اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات کیے اور طویل مذاکرات کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کے ساتھ دوحہ معاہدے پر دستخط کیے۔ امارت اسلامیہ نے ثابت کر دیا کہ وہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے پر عزم ہے لیکن امریکہ اور اس کی ماتحت کٹھ پتلی حکومت نے معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کی ہے۔ امریکہ کو جلد از جلد دوحہ معاہدے کی تمام شقوں پر نظام الاوقات کے مطابق عملدرآمد کرنا چاہئے اور جنگ کو طول دینے کے تمام عوامل کو ختم کرنا چاہئے۔

ایوان صدر کے مفکرین کو اب جو بائیڈن کی کامیابی کی امید پر امن کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے، جنگ کو بڑھانے سے گریز کریں، بین الافغان مذاکرات اور امن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے اجتناب کریں، اقتدار اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے لئے سوچنا چاہئے۔ مظلوم عوام پر رحم کریں اور وطن عزیز کی آزادی اور جامع اسلامی نظام کے نفاذ کی روک تھام کے لئے بے جا کوششیں نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے