معاہدے پر دستخط کےبعد پہلے مرحلے (135) دن مکمل ہونے کے متعلق امارت اسلامیہ کے ترجمان کا بیان

چونکہ امارت اسلامیہ اور امریکا کے درمیان ہونے والے دوحہ معاہدے کے 135 ایام مکمل ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے  ہم درج ذیل نکات نشر کرتے ہیں۔

معاہدے کے حکم کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکا اور بیرونی اتحادیوں کی جانب سے افواج میں کمی اور پانچ اڈوں سے انخلا ایک بہترین اور مثبت قدم ہے۔

اتنی مدت میں معاہدے کی پہلی شرط یعنی قیدیوں کی رہائی کے عمل میں اب تک تاخیر افسوسناک بات ہے، جو بین الافغان مذاکرات  اور ملک گیر امن کی رکاوٹ کا سبب بنا، اب تک حوالہ شدہ فہرست کے علاوہ مزید قیدی بھی رہا ہوجاتے ۔

امارت اسلامیہ کے رہنماؤں  کی بلیک لسٹ کا معاملہ بھی تاحال حل نہ ہوسکتا، جو قابل تشویش ہے، جس پر فی الفور غور اور عملی اقدامات اٹھانا چاہیے۔

معاہدے پر دستخط کے بعد امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی جانب سے بیرونی افواج پر حملے درج نہیں ہوئے، جو بذات خود امارت اسلامیہ کی طرف سے معاہدے کی شقوں پاسداری ظاہر کرتی ہے۔

اگرچہ معاہدے میں صریح موجود ہے کہ میدان جنگ سے باہر کوئی بھی فوجی کاروائی ممنوع ہے، مگر بدقسمتی سے امریکی افواج اور اس کے ملکی حامیوں کی جانب سے گذشتہ 135 دنوں میں وقتافوقتا غیرجنگی علاقوں پر بمباریاں کی گئی ہیں،  کابل انتظامیہ  کی فوجی آپریشن کے دوران ان کی حمایت کی گئی ہے،کابل انتظامیہ کے طیاروں کو امریکی پائلٹوں نے اڑا کر شہریوں، مجاہدین اور عام نتصیبات پر حملے کیے ہیں۔

امریکا نے صرف دس دنوں میں لوگر، بادغیس، میدان، غزنی، زابل، روزگان، ہلمند اور قندہار میں مسلسل طور پر متعدد ڈرون حملے اور بمباریاں کی ہیں اور دو مرتبہ چھاپے مارے ہیں، جو معاہدے کی کھلی خلاف ورزیاں اور جان بوجھ کر مجاہدین کو بڑے حملوں پر مجبور کرسکتے ہیں، امارت اسلامیہ ان تمام حملوں کی مذمت کرتی ہے اور ان کی جلد از جلد روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

صوبہ سمنگان میں کل کا حملہ، اسی طرح چند دیگر علاقوں میں جنگ کی شدت کابل انتظامیہ کی شروع ہونے والی کاروائیوں، مثلا صوبہ ہلمند ضلع سنگین کے سانحہ کی طرح شہریوں پر وحشت ناک حملوں اور امریکی افواج کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے ردعمل کے طور پر کیا گیا، جسے عمل نہیں، بلکہ ردعمل کہا جاسکتا ہے۔

امارت اسلامیہ ایک بار پھر امریکا اور متعلقہ فریقوں کو بتلاتی ہے کہ دوحہ معاہدے پر مکمل اور جلد عمل درآمد کرنا تمام فریقوں کے مفاد میں ہے،اس موقع سے سالم فائدہ اٹھانا چاہیے، امن کا عمل تاخیر اور رکاوٹ سے روبرو نہیں ہوناچاہیے اور صورت حال کو مزید بےاعتمادی، خطرات اور مسائل کی جانب سے بڑھنے سے روکنا چاہیے۔

امریکی فریق ایک خاص چھوٹے گروہ کو موقع نہیں دینا چاہیے،کہ وہ صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھائے،یہاں پوری قوم کے مفادات ، نظریات اور مطالبات کا احترام کرنا چاہیے۔

ذبیح اللہ مجاہد ترجمان امارت اسلامیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے