تحریر: سیدعبدالرزاق‏

بارہ جولائی کو امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں”ہماراموقف "کے عنوان کے تحت لکھا:دوحہ کے امن معاہدہ کی تعمیل اور انٹراافغان مذاکرات شروع کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ جنگ اور تشدد کے خاتمہ اور کمی کے لیے درست سمت کاانتخاب ہوجائے
‏اگر کوئی یہ چاہتاہے کہ پہلے جنگ ختم ہو اور پھرمذاکرات شروع ہوں تو یہ مطالبہ ہی غیر منطقی ہے
‏ہم لڑتے اس لیے ہیں کہ ہمیں اب تک اس سے بہتر نعم البدل ملا نہیں ہے-کسی کو اگر لڑائی سے نفرت ہے تو مذاکرات کی میز پر آجائے مذاکرات کی راہ میں حائل نہ بنے
‏افغان ملت کو اب چھوڑئیے کہ وہ سیاسی افہام وتفہیم کے ذریعہ ایک مثبت نتیجہ تک رسائی حاصل کرے جو کہ خود افغان عوام اور عالمی سوسائٹی کا متفقہ مطالبہ بھی ہے
‏غیر ذمہ دارانہ اور غیر منطقی باتوں سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے-الزامات سے مسائل گھمبیر بن جاتے ہیں
جتنا جلدی ممکن ہو قیدیوں کی رہائی کاسلسلہ اب مکمل ہوناچاہیے تاکہ انٹراافغان مذاکرات شروع ہوجائیں، یہی تمام مشکلات کاحل اور عقل پر مبنی موقف ہے
مجاہد صاحب دراصل گزشتہ دنوں میں رونماہونے والے ان واقعات کی طرف کی اشارہ فرمارہے ہیں جن کی وجہ سے امریکااور امارتِ اسلامیہ کے درمیان کیے گئے معاہدہ میں بدمزگی پیداہونے کاخطرہ وجود پذیر ہوگیا- عوام پر حملے اور ان کے قتل عام پر کابل انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ان کی ایک مثال ہیں-اس کے ساتھ کابل انتظامیہ کے سربراہ کے وہ الزامات بھی ہیں جو مسلسل لگارہے ہیں-ابھی گزشتہ دنوں انہوں نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوے طالبان کو مجرم ٹھہرانے کے لیے کئی الزامات لگائے-
سنگین میں عوام کاقتل عام ہوا اور کابل انتظامیہ کے وحشی فوجیوں نے کیا۔ اس پر انتظامیہ سربراہ نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان جاری کرتے ہوئے طالبان کو ملزم ٹھہرایا
مذاکرات شروع ہونے سے قبل اس نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے اپنے طرز حکمرانی پر اصرار کیااور بالکل بے بنیاد الزامات لگائے کہ اب ہم ایسی حکومت نہیں بننے دیں گے جس میں پھانسی کے پھندے پر گردنیں لٹک رہی ہوں- یہ الزام جہاں واضح طور پر غلط تھے وہیں عوام کی امنگوں کو خاک میں ملانے کے مترادف تھے
قیدیوں کی رہائی کا عوام چار ماہ سے انتظار کررہے ہیں اور معاہدہ کی رو سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے لیکن موصوف مسلسل اس راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں- موصوف کایہ غلط طرز عمل جہاں عوام کے امن وامان کو تباہ کررہاہے وہاں نفرت کے بیج بورہاہے۔ جس سے اصل حل نظر انداز ہورہا ہے۔
کابل انتظامیہ کی ایک ہٹ دھرمی جو تسلسل سے دیکھنے کو مل رہی ہے یہ ہے کہ حقیقی امن وامان کی بہ جائے ڈھکوسلوں پہ گزارا کررہی ہے-جب بھی قیامِ امن کی بات آتی ہے تو جنگ بندی کی دہائی اور ڈھنڈورا پیٹاجاتاہے جو ہرگز مسئلے کاحل نہیں ہے
مجاہد صاحب اپنے اس بیان میں اس بے بنیاد، کھوکھلے اور بے ڈھنگی پالیسی کی تردید فرماتے ہیں کہ جب ایک بات طے ہوگئی ہے اور عقل کی رو سے اس پر عمل کرنے سے امن کاحقیقی قیام ممکن ہے وہ یہ کہ قیدی رہاہونگے تو مذاکرات شروع ہوجائیں گے اور مذاکرات کے ذریعہ جنگ بندی، آزادی اور مستقل حکومت کے قیام کے سارے مسائل طے ہوجائیں گے- تو پھر دور دور کی باتوں کاسہارا کیوں لیاجاتا ہے اور حل کی بجائے الزامات کا سلسلہ کیوں شروع ہوجاتاہے؟
لیکن چونکہ اس طرح سے کابل انتظامیہ کو اپنااقتدار اور کرسی خطرے میں نظر آتی ہے اس لیے اس کوچھوڑ کر بات کو ادھر ادھر گھماتی ہے اور حقائق سے صرف نظر کرتی ہے
ذبیح اللہ مجاہد صاحب کی بات اور بحیثیت ترجمان ان کاموقف جہاں اعتدال پر مبنی ہے وہاں چالیس سال سے جاری کشمکش اور خون کی ہولی کے خاتمہ کاحقیقی حل،گھمبیر حالت کی انتہا اور ملک وملت کے پائیدار امن کاضامن بھی ہے-یہی وجہ ہے کہ ناکام دشمن بہ جائے توجہ دینے کے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اپنی بوکھلاہٹ کامظاہرہ کرتاہے
البتہ ملت کو یقین ہے کہ مجاہد صاحب کایہ موقف ان کے لیے خیر اور ان کی ترقی کاضامن ہے اور ان شاءاللہ ایک دن ضرور ان کاموقف عملا نافذ ہو کررہےگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے