جولائی 13 سن 1931ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔جب ایک آذان کے 17 کلمات کو ادا کرنے کے لئے وادی کشمیر نے اپنے 22 بیٹے قربان کر دیے تھے۔
یہی وہ دن تھا کہ جب سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوج نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 22 افرادکو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔
اس واقعہ سے قبل 19اپریل 1931ء کو جموں کی جامع مسجد کے امام مفتی محمد اسحٰق میونسپل باغ کمیٹی میں عیدالاضحی کا خطبہ دینے کیلئے موجود تھے کہ ڈوگرہ پولیس کے انتہائی متعصب ڈی آئی جی چوہدری رام چند نے انہیں عید کا خطبہ دینے اور نماز کی ادائیگی سے روک دیا جس پرمقامی مسلمانوں نے اسے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور پورے جموں میں ایک زبردست احتجاجی لہر چھڑ گئی۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ جموں میں ہی 4جون 1931ء کوایک ہندو پولیس انسپکٹر لبھو رام نے (نعوذ بااللہ) قرآن پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا جس پر کشمیری مسلمانوں کے جذبات مزید مشتعل ہو گئے اور پوری ریاست جموں کشمیر میں احتجاج کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان واقعات کیخلاف 25جون 1931کو ریڈنگ روم پارٹی کی جانب سے سرینگر میں ایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں شیخ محمد عبداللہ سمیت کئی لیڈروں نے ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر یں کیں۔اسی جلسے میں عبدالقدیر نامی ایک نوجوان جسے مجمع میں کوئی نہیں جانتا تھا’ نے آگے بڑھ کر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی زبردست تقریر کی جس نے لوگوں کا خون گرما کر رکھ دیا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں شرکاء کو بتایاکہ جب مسلمانوں کی عزتیں، جان و مال اور حقوق محفوظ نہ ہوں اور انہیں عبادات کی بھی مکمل آزادی حاصل نہ ہو تو پھر مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ میدان میں عمل میں نکلیں اور دین اسلام کے دفاع کیلئے قربانیوں و شہادتوں کاراستہ اختیار کیا جائے۔
ان کے اس خطاب کے فوری بعد انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔پانچ جولائی کو اس کیس کی سماعت سنٹرل جیل سری نگر میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے خلاف 12جولائی 1931 کو پورے شہر میں تاریخی ہڑتال کی گئی۔
جولائی 13 سن 1931ء کو سنٹرل جیل میں کیس کی سماعت ہونا تھی۔اس دن صبح سے ہی سری نگر اور گردونواح سے قافلوں نے جیل کے باہر پہنچنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد اس قدر بڑھی کہ دور دور تک ہر طرف لوگوں کا ایک سمندر نظر آتا تھا جو دینی جذبہ کے تحت اپنے اس بھائی کو جیل میں ڈالے جانے کے خلاف احتجاج کرنے اور اس کیس کی کاروائی سے متعلق آگاہی کیلئے یہاں پہنچے تھے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ نماز ظہر کا وقت آن پہنچا اورلاکھوں کشمیریوں نے نماز کی تیاری کا آغاز کر دیا۔ اس دوران ایک نوجوان اذان کہنے کیلئے آگے بڑھا اور ابھی اس نے اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ ڈوگرہ فوجیوں نے گولی چلائی جو اس کے سینے پر لگی اور وہ موقع پر شہید ہوگیا۔
ڈوگرہ فوجیوں کی یہ حرکت پورے مجمع کیلئے بہت بڑا چیلنج تھی۔پہلے نوجوان کی شہادت کے بعد دوسرا آگے بڑھا ‘ اس نے بھی ابھی اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جیل کے باہر موجود کشمیری اس قدر پرعزم تھے کہ ہر شخص آگے بڑھ کر اذان کہتے ہوئے شہادت حاصل کرنے کا متمنی تھا ۔ کسی کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ جس نماز کی نیت سے اذان کہی جارہی ہے وہ مکمل نہ ہو سکے ۔اس طرح غیور کشمیری آگے بڑھتے اور اذان کے الفاظ کہتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے رہے۔
یوں پوری دنیاکی تاریخ میں یہ منفرد اذان تھی جسے کہنے کیلئے 22 افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سنٹرل جیل کے باہر نہتے کشمیریوں پر اس طرح گولیاں برسانے کی خبر جب وادی کے اطراف و کناف میں پھیلی تو ہر طرف ایک طوفان بپا ہو گیا اور ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا۔ جگہ جگہ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کر دیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔
جولائی 15 سن 1931ء سے 24 ستمبر 1931تک کشمیر کے چپے چپے میں ڈوگرہ فوجیوں کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کا زبردست قتل عام کیا گیا اور اس عرصہ میں کثیر تعداد میں مزید کشمیری شہید کر دیے گئے۔
جولائی 17 سن 1931ء کو جمعہ کا دن تھا ۔ چار دن پہلے سنٹرل جیل کے باہر ہونے والے قتل عام کے باعث پوری وادی غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف کشمیر ی مسلمانوں کے دلوں میں پیداہونے والی نفرت شعلوں میں تبدیل ہوچکی تھی۔ہر سو لوگ سراپا احتجاج تھے ۔ کاروبار زندگی ٹھپ ہو چکا تھا۔نماز جمعہ کے بعد پوری وادی میں احتجاج کا پروگرام تھا ۔لوگ قطار اندر قطار مساجد کا رخ کر رہے تھے۔
ایسے لگتا تھا کہ جیسے تمام راستے مساجد کو جاتے ہوں۔بھاری تعداد میں ہندوستانی فورسز تعینات تھیں’کسی کو معلوم نہ تھا کہ آج خون کی ایک اورہولی کھیلی جائے گی۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب احتجاجی جلوس نکالا گیا تو وہاں تعینات ڈوگرہ فوجیوں نے ایک بار پھر بندوقوں کے دہانے کھول دیے اوردیکھتے ہی دیکھتے چھ کشمیری شہید کر دیے گئے۔لوگوں کے جذبات اس قدر مشتعل تھے کہ غلام محمد خان نامی ایک نوجوان جس کی شادی انہی دنوں ہوئی تھی’ نے جب جلوس پر گولیاں چلتے ہوئے دیکھیں تو اس نے اپنی دکان میں جلنے والے چولہے سے ایک جلتی ہوئی لکڑی نکالی اور پولیس اہلکاروں پر ٹوٹ پڑا جنہوں نے جواب میں تھری ناٹ تھری بندوق سے اس کے سینے میں کئی گولیاں پیوست کیں اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگیا۔ اس کے بعد کرفیو نافذ ہوا اور تین روز تک لاشیں جامع مسجد بھی پڑی رہیں۔
بعد میں مقامی لوگوں نے ان تمام نعشوں کو ایک ہی جگہ دفن کیا جو مزار شہدا1931کے نام سے موسوم ہے۔آج اس واقعہ کو86 برس گزر چکے ہیں لیکن ان شہداء کی قربانیوں کو آج بھی اسی طرح یاد کیا جا تا ہے جنہوں نے اس وقت اپنے آج کو کشمیری قوم کے کل کیلئے قربان کر دیا۔13جولائی کے شہداء کا مشن آج بھی ادھورا ہے۔ غاصب بھارتی فوج کے خلاف قربانیاں پیش کرنے والے کشمیریوں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس مشن کوفراموش نہیں کیا ہے۔
کشمیرمیں اگر اسوقت لوگ اپنے بچوں کے جنازوں کو کندھا دیتے تھے تو آج بھی اس جیسے واقعات پیش آرہے ہیں’ جہاں بوڑھے والدین اپنے بچوں کومنوں مٹی تلے دفن کرتے نظر آتے ہیں