ملت ابراہیمی کے پیروکاروں کے لئے سال کے افضل ترین ایام ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کمائی اور قربانی کا موسم ہیں…۔
ان ایام میں کیے جانے والے اعمال محبوب ترین اور یہ راتیں مقبول ترین ہیں۔ اور ان اعمال میں سب سے محبوب ترین عمل ’’قربانی‘‘ ہے۔ عاشقانہ عبادت ’’حج‘‘ کی ادائیگی بھی انہی مخصوص ایام میں ہوتی ہے۔
گویا یہ ایام قربانی ہی قربانی ہیں۔
اعمال میں محنت اور سبقت یعنی خواہشات کی قربانی…۔
راتوں کی عبادت یعنی آرام کی قربانی…۔
اُضحیہ‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے مال سے خریدے گئے جانور کی قربانی…۔’’
حج ‘‘ کے لئے سفر…گھر بار کی قربانی…۔’’
پھر’’ حج‘‘ میں قربانی ہی قربانی … اچھے لباس کی قربانی…خوشبو کی قربانی… نزاکت کی قربانی، عیش و عشرت کی قربانی…پس جو انسان ان ایام میں ’’قربانی‘‘ کے عمل کو جس قدر اپناتا چلا جائے گا اسی قدر’’قرب‘‘ پاتا چلا جائے گا۔اسی قدر کامیابی کے قریب آتا چلا جائے گا…۔
دیکھئے!۔
ہمیں یہ ’’تقرب‘‘ کا موسم کن کی اتباع میں ملا؟…۔
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام…۔
ان سے کیا کیا قربانی مانگی گئی؟…باپ کے تعلق کی قربانی…بخوشی پیش کر دی…۔
علاقے اور قوم کے تعلق کی قربانی… وہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دئیے…۔
بڑھاپے کی اولاد اور بیوی سے بُعد کی قربانی… انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر شیر خوار بچے اور بے سہارا اکیلی عورت کو لق و دق صحراء میں چھوڑا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا…۔
اپنی جان کی قربانی… وہ دیوانہ وار بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے…۔
اولاد کی جان کی قربانی…انہوں نے بڑھاپے کے سہارے کی گردن پر چھری چلا دی…۔
وہ جب یہ ساری قربانیاں پیش کر چکے تو انہیں ’’قرب‘‘ کا ایک خاص انعام ملا…وہ اللہ تعالیٰ کے ’’خلیل‘‘ یعنی خالص دوست کہلائے…وہ ہزاروں انبیاء کرام کے مقتدیٰ و پیشوا بنے اور سب سے افضل امت کو ان کی نسبت سے ’’ملت ابراہیم ‘‘ کا اعزاز بخشا گیا۔
انہوں نے اپنی ہر متاع اپنے محبوب حقیقی اپنے رب کے لئے قربان کر دی۔ بدلے میں ہر بلندی اور رفعت کا ہر مقام انہیں نصیب ہوا۔
یہ کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو جو درود شریف سکھایا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام مبارک اپنے نام کے ساتھ لینے کا حکم فرمایا۔اللہم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید…اللہم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید…اور یہ درود پاک مشہور ہی درود ابراہیمی کے نام سے ہو گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ بعد میں بھی ان کی امت باقی نہ رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’قربانی‘‘ وہ عمل ہے جس کا بدلہ بہت بڑا اور بہت اونچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی، سب سے آخری اور سب سے ’’خیر‘‘ امت کو ان کے لئے درود و سلام پر لگا دیا تاکہ ان کا نام قیامت تک لیا جاتا رہے، اور انہی کے صدقے ’’قربانی‘‘ کے عمل کو یہ خاصیت عطاء فرمائی کہ جو بھی اس عمل کو اپنائے گا رفعت و بلندی پائے گا اور اسکا نام باقی رہے گا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل قرار دیے گئے۔ انہیں معیار حق بنا دیا گیا۔ان کی محبت ایمان کی علامت اور ان کا بغض نفاق کا شعار ٹھہرا۔ جو ان سے محبت کرے گا خوش نصیب ہو گا، جو ان کے راستے پر چلے گا یقینی کامیابی پائے گا، جو ان پر زبان چلائے گا نفاق کا شکار ہو گا، جو ان کا بغض دل میں رکھے گا ایمان سے محروم ہو گا۔ لیکن یہ مقامات دے کر ان سے جو قربانیاں لی گئیں ہم اور آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت جس قوم کو محبوب رکھتے ہیں ان سے قربانی لیتے ہیں۔جو لوگ آج بھی صحابہ کرام کی طرح دین کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں،گھر بار چھوڑ رہے ہیں، جانیں اور اموال قربان کر رہے ہیں ، اپنے جسموں کے ٹکڑے پیش کر رہے ہیں، ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، جن کے جسموں کو چھیدا جا رہا ہے اور ان پر آسمان سے آگ برسائی جا رہی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں۔
اس لئے قربانی جیسے ابراہیمی عمل کے لئے منتخب کئے گئے ہیں، امن و سلامتی میں رہنے والے ان پر زبانیں تو چلا سکتے ہیں، ان کے بارے میں شکوک و شبہات تو پھیلا سکتے ہیں لیکن ان کے مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ وہ بہت اونچے لوگ ہیں بڑے اونچے مقامات پر فائز ہیں۔
یہ اہل عزیمت ہیں جنہوں نے آرام طلبی اور عیش کوشی کا راستہ ٹھکراکر یہ بلندی والا راستہ چنا ہے۔ یہ ان پر حالات کا جبر نہیں ان کا اپنا انتخاب ہے۔
آپ بتائیے! کہ کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے دنیا طلبی کا کون سا راستہ بند ہے؟ہندوستان مراعات دینے پر آمادہ ہے…یورپی ممالک کے ویزے فراوانی سے دستیاب ہیں… اپنی تعلیمی قابلیت اور خداداد ذہانت کی بنیاد پر یہ قوم ہر میدان میں سبقت حاصل کر سکتی ہے…۔
لیکن نہیں…انہوں نے اپنے لئے خود ابراہیمی راستہ چن لیا ہے…انہوںنے غلامی کو مسترد کر دیا ہے…ہر باطل نظام کو ’’لا‘‘ کہہ دیا ہے…اسلام اور مکمل آزادی کے علاوہ ہر نظام کو ٹھکرا دیا ہے اور اس کی خاطر آنے والی ہر تکلیف کو ابراہیمی شان کے ساتھ بخوشی قبول کر لیا ہے…۔
اب دیکھ لیجئے گا۔ یہ وقت گذر جائے گا۔ آج کا دن کل کے لئے تاریخ بن جائے گا اور تاریخ اپنے سینے میں صرف چند قربانی دینے والوں کو یاد رکھ کر باقی سب کچھ مٹا دیتی ہے۔ تاریخ اس زمانے کے ان سارے کرداروں کو یا تو فراموش کر دے گی یا اگر یاد رکھا تو برے الفاظ سے یاد کرے گی جنہوں نے وقتی سلامتی کو عزیمت و قربانی پر ترجیح دے دی،تاویل و تلبیس کا طریقہ اپنایا، ہر آنے والی تبدیلی اور وقت کے ہر جبر کے آگے سرنگوں ہونے کی پالیسی کو ذہانت اور مصلحت قرار دے کر اپنایا۔
تاریخ اگر نہ بھلا سکی تو ملا عمر کو نہ بھلاپائے گی۔اسامہ بن لادن کو فراموش نہ کر سکے گی۔ ان اہل عزیمت کو یاد رکھنے پر مجبور ہو گی جنہوں نے ہر جبر کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اپنی قدامت کو ہی اپنا مایۂ افتخار بنائے رکھا۔ یہ ہوا ہر زمانے میں چلتی ہے ، اس کے زیر اثر اہل مصلحت معزز ہو جاتے ہیں اور اہل عزیمت بدنام۔
لیکن تاریخ گواہ ہے وقت نے اپنا فیصلہ ہمیشہ اہل عزیمت کے حق میں سنایا اگرچہ ان کی قربانی بہت لگی۔ یہ وقت بھی گذر جائے گا اور تاریخ اپنا وہی فیصلہ سنانے پر مجبور ہو گی جو اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سے لکھ دیا گیا ہے۔
بات قربانی کی چل رہی تھی اس کے ایک خاص پہلو کی نذر ہو گئی۔عشرہ ذی الحجہ قربانی کا موسم ہے اور اس میں ہم سے ہمارے خالق و مالک اللہ عزوجل نے کچھ مال خرچ کر کے جانور ذبح کرنے کی قربانی مانگی ہے۔کامیابی اسی میں ہے کہ بخوشی یہ قربانی مالک کے حضور پیش کر دی جائے۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا عمل واجب قربانی کے ساتھ نفل قربانی پیش کرنے کا تھا۔ یعنی جتنی قربانی مانگی گئی ہے اس سے بڑھ کر پیش کی جاتی تھی۔ ہمارے لئے بھی اسوہ حسنہ یہی ہے۔ تو اپنی واجب قربانی اہتمام سے اداء کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور نفل قربانی ان لوگوں کے نام کر دیں جو زمانے کے نمرودوں کے مقابل ابراہیمی کردار کو زندہ کر رہے ہیں، یوں قربانیوں کا موسم ہمارے لئے مزید خاص بن جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ…۔
اپنی واجب قربانی گھر پر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جس قدر نفل قربانیوں کی استطاعت ہو وہ ’’اہل عزیمت‘‘ کے حوالے کر دیں، یہ بڑی اونچی جگہوں پر پہنچائی جائے گی، یہ اللہ تعالیٰ کے راستے کے غازیوں کی ضیافت ہو گی اور شہداء کے اہل خانہ کو بھیجی جائے گی