تحریر:سید عبدالرزاق

 جون ۲۹ کو صوبہ ہلمند کے ضلع سنگین میں پرانے بازار میں عوام کے ہجوم پر ایک بے رحمانہ حملہ ہوا جس میں کئی انسانی جانوں سمیت مویشیوں کی بڑی تعداد بھی اس ظالمانہ حملے میں ماری گئی۔ سبگین میں واقع یہ بازار جسے مقامی لوگ میلہ کہتے ہیں ایک خاص طریقےسے لگتاہے -اس کو سمجھنے کے لیے کتب میلہ، جانور منڈی یاپھر لنڈا بازار کی مثال دی جاسکتی ہے- اسی کو اتوار بازار، پیر بازار، جمعہ بازار اور بدھ بازار کی تناظر میں بھی سمجھاجاسکتاہے-اور اگر بہت پہلے کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو افغانی ثقافت میں یہ بازار سوق عکاظ طرز کاایک بازار قرار دیاجاسکتاہے-اس بازار میں لوگوں کی ایک جماعت تو اپناسامان لے کر آتی ہے اور یہاں فروخت کے لیے رکھ دیتی ہے جبکہ عام خریدار یہاں سے سودا سلف اور روز مرہ کی تمام ضروری اشیاء خریدنے کے لیے آتے ہیں.
افغانستان کی عام آبادی صبح سویرے نکلنے کی عادی ہے-نماز کے فورا بعد یازیادہ سے زیادہ سورج نکلنے کے بعد تمام افراد اپنے کام کے لیے نکلتے ہیں-انتیس جون کو بھی یہ مظلوم طبقہ اپنے گھروں سے نکل کر اس بازار کارخ کرچکاتھا۔ یہ لوگ گھر والوں کو واپسی کی یقین دہانی کے ساتھ ان کی فرمائشیں پوری کرنے کابھی وعدہ کرکے آئے تھے۔ لیکن ظالموں نے ان کی یہ امیدیں خاک میں ملادی-نو بجے کے لگ بھگ جب بازار اچھا خاصا سج چکا تھا چہار سو لوگوں کی بھیڑ اور آوازیں دکھائی اور سنائی دے رہی تھیں- دیگر ساز وسامان کے ساتھ جانور بھی خرید وفروخت کے لیے بڑی تعداد میں حاضر کیے گئے تھے- ہر طرف بھاو تاو اور قیمتوں کے اتار چڑھاو کی باتیں ہورہی تھیں- اس شور می بڑوں کے ساتھ ان کے بچوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ دوسری طرف کچھ بے آسرا بچے اپنی کفالت کے لیے لگائے ٹھیلوں پر کھڑے معصوم آوازوں سے گاہکوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں مصروف تھے-کہ ایک بلاے ناگہانی ان پر ٹوٹ پڑی-دنیا میں قیامت صغری برپا ہوگئی- آن کی آن میں میدان خون سے رنگین ہوگیا-بازار جس میں تھوڑی دیر پہلے چہل پہل تھی یکدم ماتم کدہ بن گیا-بڑے بچے خواتین اور مویشی تک سب خون میں لت پت ہوگئے-
کابل انتظامیہ کے میوند کور کے بریگیڈ نمبر 2 نے اپنے ہی ہم وطنوں کو تہ تیغ کرنے کے لیے اپنی توپوں کارخ انہیں کی طرف کرلیا اور پے در پے میزائل داغے جن سے دسیوں معصوم جانیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں- دنیا کامعصوم ترین طبقہ (بچے اور خواتین)اس قربانی میں شامل ہوئے۔ اور تو اور مویشی بھی ظلم کے اس حملے سے نہ بچ سکے۔ لوگوں کی املاک تباہ ہوکر رہ گئیں-
یہ کوئی کم ظلم تھا اور نہ ہی کوئی معمولی واقعہ لیکن وحشت کی چھتر میں پلنے والوں نے اس پر بس نہیں کیا-کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے جھوٹ کاسہارا لیتے ہوے ایک دفعہ پھر اپنی ملت سے دھوکہ کیا-واقعہ کی مذمت کرتے ہوے بجائے اصل مجرم کے سارا ملبہ امارتِ اسلامیہ پہ ڈال دیااور اس کو کار بم حملہ قرار دے کر طالبان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔اشرف غنی کایہ جھوٹ جس بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے سامنے آیا اس کے لیے مذمت کالفظ انتہائی کم ہے۔ اتنے بڑے گھناونے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا چھچھوراپن ان کی ملت دشمنی، انسانی حقوق سے سرتابی اور بشریت کے منافی طرز عمل کو ظاہر کرتاہے –
امارتِ اسلامیہ اس واقعہ سے برائت کااعلان کرچکی ہے اور ملت کو یہ اطمینان بھی دلاچکی ہے کہ ان کاخون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ایک ایک قطرے کاحساب ہوگا اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے گا-
یہ بے حسی اور درندگی اشرف غنی ہی کرسکتاہے کہ پہلے تو اپنی قوم کا قتل عام کرے اور پھر ان کے زخموں پر نمک بھی چھڑکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے