مولانا عزیز الرحمن ، باکمال زندگی، بے مثال رخصتی

آخری قسط
نوید مسعود ہاشمی
پیر طریقت مولانا محمد عزیز الرحمن ہزاروی2 فروری1948 ء کو ضلع بٹ گرام کی بستی چھپر گرام میں حضرت مولانا محمد ایوب کے گھر پیدا ہوئے اور1972 ء میں سند فراغت عالم اسلام کی معروف دینی یونیورسٹی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے حاصل کی … یہ دارالعلوم حقانیہ میں۔۔۔ ان کے سربلند اساتذہ کرام ، محدث جلیل مولانا عبد الحق، استاد المجاہدین حضرت مولانا سید شیر علی شاہ المدنی جیسوں کا ہی فیض تھا۔۔۔ کہ آپ آخری سانسوں تک حق و صداقت کے پرچم کو تھام کر شہر شہر ، ملکوں ملکوں۔۔۔ دین اسلام کی سربلندی کیلئے سرگرم رہے۔
آپ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نور اللہ مرقدہ کو بھی اپنا محسن اور مربی قرار دیا کرتے تھے … ذکر اللہ اور درود شریف کو عام کرنا، اپنے مریدین اور متوسلین کو صرف مسجدوں اور مدرسوں میں ہی نہیں … بلکہ دوکانوں اور گھروں میں بھی درود شریف کی محفلیں منعقد کرنے کی ترغیب دینا۔۔۔ آپ کا خاص ذوق تھا … خود اس خاکسار کو حضرت اقدس مولانا عزیز الرحمن نے جب بھی فون کیا … فون کا مقصد کوئی بھی کیوں نہ ہو … آخر میں یہ ضرور تاکیدفرماتے کہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ درود پاک ”وصلی اللہ علی النبی اُمی” 5 سو مرتبہ ہر روز پڑھا کرو۔
نہ آپ کی خانقاہ روایتی تھی اور نہ ہی۔۔۔ آپ خود روایتی پیر تھے۔۔۔ کہ جو محض تعویذ دھاگے، یا دم کرکے پھونکیں مارنے تک ہی محدود رہتے … بلکہ آپ کی گفتگو میں دین کا درد، اخلاص ، دعوت و اصلاح کا جذبہ، علم کے موتی، ذکر اللہ کی ترغیب، درود پاک کا اہتمام، بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم پر لانے کی تڑپ … افغانستان ہو ، کشمیر ہو، شام ہو ، عراق ہو یا فلسطین، مظلوم مسلمانوں کی خاطر آنکھوں میں آنسو، مجاہدین کے لئے ، ہر وقت اور ہر حال میں دعائیں، ختم نبوتۖ کا محاذ ہو، ناموس رسالتۖ کا مسئلہ ہو یا تحفظ ناموس صحابہ، کا معاملہ، لبرل ازم اور سیکولر لادینیت کی یلغار ہو یا ”میرا جسم، میری مرضی” کی سرکشی کانعرہ ،ملکی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں یا پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص پر حملہ ، نائن الیون کے بعد مجاہدین اور علماء کے خلاف ہونے والی سازشیں ہوں یا۔۔۔ دینی مدارس کو لاحق خطرات … مولانا عزیز الرحمن ہزاروی ہر محاذ پر صف اول پر ڈٹے نظر آئے،23 جون کی صبح 7 بجے جب میرے دوست مفتی مجیب الرحمن نے ”پیرومرشد” کے انتقال کی خبر ٹیلی فون کے ذریعے مجھے دی۔۔۔ تو خبر کو سن کر بے اختیار آنکھیں برسناشروع ہوگئیں۔
محفل سوزو گداز غم کو گرمائے گا کون
اہل دل کو اپنے درد دل سے تڑپائے گا کون
موجزن ہے کس کے دل میں آتشیں سیال غم
مستی خون جگر آنکھوں سے برسائے گا کون
کس پہ طاری ہے جنون عشق کی وارفتگی؟
یوں زباں پر والہانہ راز دل لائے گا کون
عارفی میرا ہی دل ہے محرم نازو نیاز
بعد میرے راز حسن و عشق سجھائے گا کون
میں کراچی میں تھا۔۔۔ تو وہ فون پر مجھے اسلام آباد آنے کی دعوت دیتے رہے … لاک ڈائون کی وجہ سے نکلنے میں دیر ہوگئی … عید کے بعد اسلام آباد پہنچا تو خبر ملی کہ وہ بیمار ہیں۔۔۔ اور ملاقات پر بھی پابندی ہے … ملاقات کا شوق دل میں دبا کے میں ان کی صحت کی خبر کا منتظر تھا ۔۔۔کہ مفتی مجیب الرحمن نے ان کے انتقال پر ملال کی خبر سنا ڈالی، اب آنسو تھے اور میں تھا۔۔۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
”دل” نے صلاح دی کہ ان کے جنازے پر چلو، ”دماغ” کا مشورہ تھا، خبردار، ہر طر ف کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے، اجتماع سے دور رہو، ”دل” بولا کہ ان کے جنازے پر نہیں جائو گے کہ جو ساری عمر انسانوں کے دلوں سے شرک و بدعت کی نحوستوں کو نکال کر وہاں رب کی توحید اور محمد کریمۖ کی رسالتۖ کے عشق پروان چڑھایا کرتے تھے۔۔۔ ”دماغ” نئی دلیل کے ساتھ چڑھائی کرنے کے موڈ میں آیا تو میں نے دماغ میں آنے والے خیالات کو جھٹک کر ”دل” کی بات مان لی۔
کیا دل ہے کہ ایک سانس بھی آرام نہ لے ہے
جلوت سے جو نکلے تو خلوت میں چلے ہے
یہ خاکسار مفتی مجیب الرحمن کی ہمراہی میں 23 جون کی صبح ساڑھے دس بجے ہی جامعہ دارالعلوم زکریا ترنول پہنچ گیا۔۔۔کہ جہاں راولپنڈی، اسلام آباد کے جید علماء کرام سمیت سینکڑوں سوگواران پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے … ظہر تک دارالعلوم کے وسیع و عریض ہال، صحن، چھتیں، بالکونیاں انسانوں سے بھر چکی تھیں، لیکن عصر کی نماز کے بعد تو دارالعلوم کے بیرون بھی دور دور تک انسانی سروں کی فصل لہلہاتی ہوئی نظر آرہی تھی… ایسے لگتا تھا کہ جیسے چاروں طر ف سے انسان امڈ امڈ کر جنازے کیلئے آرہے ہوں ،ان میں علماء بھی تھے ، طلباء بھی تھے، صلحاء بھی تھے، مختلف جماعتوں کے سیاس دان اور عام سیاسی ورکرز بھی تھے … مجاہدین بھی تھے ، تاجر بھی تھے ، وکلاء بھی تھے، صحافی بھی تھے ، غرضیکہ کوئی شعبہ ایسا نہ تھا کہ جس کے وابستگان جنازے کے اجتماع میں شریک نہ ہوں، میں اس گنتی میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ان کی تعداد ہزاروں میں تھی یا لاکھوں میں … لیکن میں اتنا ضرور لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ سارے ”دل” والے تھے … جنازہ جو ”دلوں” کا تزکیہ کرنے والے کا تھا، جنازہ اس کا تھا کہ جو ساری عمر انسانی دلوں میں توحید کی شمع فروزاں کرتا رہا، جنازہ اس کا تھا کہ جو ساری عمر انسانی دلوں میں درود شریف سے محبت کی تڑپ جگاتا رہا … جنازہ اس کا تھا کہ جو لا الہ الا اللہ کی ضربوں سے انسانی دلوں پر لگے ہوئے جہالت کے قفل توڑتا رہا، ایسے جنازوں میں پھر ”دل” والے ہی شامل ہوا کرتے ہیں۔۔۔
حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مفتی اویس عزیز کو گلے سے لگایا تو انہوں نے برستی آنکھوں کے ساتھ اپنے سربلند بابا کی آخری صبح کی روداد سنائی، حضرت اقدس مولانا عزیزالرحمن نور اللہ مرقدہ کی وفات سے قبل آخری صبح بھی نہایت خوبصورت، روشن اور مثالی تھی … اس کی تفصیل آئندہ کسی کالم میں لکھوں گا،(ان شاء اللہ)۔
حضرت اقدس مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کی نماز جنازہ کربوغہ شریف کی نامور روحانی شخصیت حضرت مولانا پیر مختار الدین شاہ نے پڑھائی، مگر انسانی سروں کا اک سمندر تھا کہ جو جنازے کے بعد بھی اپنی جگہ سے ہلنے کیلئے تیار نہ تھا … بار بار اسٹیج سے کہا جارہا تھا کہ لوگ آہستہ آہستہ گھروں کو روانہ ہو جائیں، مگر عشاق تھے کہ پرنم آنکھوں کے ساتھ حضرت کے دارالعلوم کے گرد کھڑے تھے، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ
چشم مست ناز ساقی کے پرستاروں سے پوچھ
تشنگی ہوتی ہے کیسی، میکشی ہوتی ہے کیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے