تحریر : خالد افغان زوئے

ترجمہ: عبدالہادی فرہاد

مشرق وسطی میں امریکی سینٹرل کمانڈ(سینٹکام) کے سربراہ جنرل میکنزی جن کے افغانستان میں تعینات امریکی افواج بھی زیر کمان ہیں۔انہوں نے18 جون کو  ایک اجلاس سے ویڈیو کےذریعے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونےوالے معاہدے پر اچھی طرح عمل جاری ہےاور اب تک ہم نے ان تعداد فوجوں کو افغانستان سے نکالے ہیں،جو معاہدے کی بنیاد پر پہلے 135 دنوں میں نکالنا چاہئے تھا.

دوحہ معاہدے کی رو سے امریکی فریق جولائی 2020 ء تک اپنی افواج کی تعداد کو 8600 تک کم کرکے پانچ فوجی اڈے خالی کروادے۔اس حال میں مقررہ مدت تک چند ہفتے باقی ہیں،امریکی فوجی حکام کہتے ہیں کہ ہم نے افغانستان سے متعین کردہ اہلکاروں کو نکال دیے ہیں۔

امریکی  جنرل میکنزی کےبیان سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکی فریق بھی امارت اسلامیہ کی طرح بیرونی قبضہ ختم کرنے کے معاہدے کو پابند ہیں  اور اس سلسلے میں سنگین اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

مشرق وسطی میں امریکی  سنٹرل کمانڈ سینٹکام سے ماضی میں ہمیشہ افغانستان میں افواج کی زیادتی اور قبضہ کو برقرار رکھنے کی خبریں سنائی دیجاتی،اب چونکہ کمانڈر افغانستان سے اپنی سپاہ کے انخلا کی خبریں دے رہی ہیں،افغان قوم اس بیان کا خیرمقدم کرتی ہے اور اسے افغانستان و امریکا دونوں کے مفاد میں سمجھتی ہے۔

جسطرح جنرل میکنزی نے اس بات کی طرف اشارہ کیاہے.

جیسا کہ جنرل میکنزی نے اس بات کی جانب اشارہ کی ہے،امید ہے کہ آئندہ سال 2021ء کے مئی تک یہاں موجود امریکی فوجیں بھی افغانستان سے انخلا کریں اور اس طرح  افغانستان کی وہ خودمختاری اور حاکمیت دوبارہ واپس لوٹ آجائے جو اب سے  19 سال پچھلے  ناجائز جارحیت کے نتیجے میں غصب کی گئی تھی۔

چونکہ ایک طرف  ملکی سطح پر قیدیوں کے تبادلے اور رہائی کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب امریکی فوجیں اڈے خالی کرکے افغانستان سے انخلا کررہی  ہیں،اسکا مطلب ہے کہ قبضہ ختم کرنے والا معاہدہ رنگ لا رہاہے اور صورتحال بہتری کی طرف رواں دواں ہیں. ملک کے کچھ دشمن عناصر اس نازک صورت حال میں اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں اور فریبوں سےحالات کو غیریقینی بنانا چاہتا ہے.انہیں افغان قوم ملک کے دشمنوں کے طور پر پہنچان لے اور انہیں اجازت نہ دی جائے،کہ کامیابی کو  ادھورا کریں۔

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہماری ملت کی وہ عظیم آرزو ہے،جس کے لیے انہوں نے 19 برس جہادی جدوجہد  کی اور ہمیشہ اس موضوع کو ہمیشہ اپنی سیاسی اور حقیقی مقصد کے طور پر پیش کی، اب چونکہ یہ مقصد عملی طور پر  پورا ہونے والا ہے، تو ہمارے خیال میں یہ نہ صرف افغانستان بلکہ خطے اور حتی کہ تمام دنیا کے لیے بھی مثبت پیشرفت سمجھا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے