نوید مسعود ہاشمی

رمضان المبارک میرا کراچی میں گزرا‘ ان کا ہر دن یا دوسرے دن شفقت بھرا فون آتا‘کورونا وائرس اور لاک ڈائون کی وجہ سے غربت کے ہاتھوں پسے ہوئے انسانوں کی مدد کے لئے انہوں نے خوداپنے آپ کو‘ اپنی اولاد‘ مساجد‘ خانقاہوں ٹرسٹ اور مریدوں کو وقف کر رکھا تھا…رمضان المبارک کی آمد سے قبل ان کی زیرپرستی ایک ہزار خاندانوں تک راشن پہنچایا گیا‘ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ ہم نے  زکریا ٹرسٹ کی معرفت رمضان پیکج بھی مستحقین تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے… غالباً یہ 15 رمضان المبارک کا دن تھا کہ جب ان کا فون آیا فرمایا کہ میں نے اپنے بچوں کو بلا کر کہہ دیا ہے کہ اس مرتبہ میرا عید کا نیا سوٹ نہیں بنے گا…بلکہ سوٹ کی قیمت کسی غریب انسان کے گھر کے راشن کیلئے جمع کروا دو‘ یہ سن کر میرے بیٹوں‘ ان کے بیوی‘ بچوں‘ میرے بھائیوں غرضیکہ خاندان کے سارے چھوٹے بڑوں‘ عورتوں‘ مردوں نے عید کے نئے سوٹ خریدنے کی بجائے…سوٹ کے برابر رقم راشن فنڈ میں جمع کروا دی…۔

یہ گھر سے شروع ہونے والی ترغیب مریدین‘ متوسلین‘ طلباء کرام‘ اساتذہ کرام تک جا پہنچی… انہوں نے بھی عید پہ نئے سوٹ بنانے کی بجائے وہ رقم رمضان راشن پیکج میں جمع کروا دی… یوں وہ رقم لاکھوں تک جا پہنچی‘ پھر اس رقم سے راشن خرید کر درجنوں مستحق خاندانوں تک پہنچانے کی ترتیب بنانے پر وہ بہت خوش تھے… شروع‘ شروع میں وہ اپنے ہونہار فرزند مفتی اویس عزیز کی معرفت کال ملوا لیا کرتے تھے… لیکن بعد میں انہوں نے براہ راست کال کرنے کی شفقت فرمانا شروع کر دی‘ میں ان کو سالہا سال سے جانتا تھا… ان کی خانقاہ مسجد صدیق اکبرؓ الہ آباد چوہڑ چوک جب کبھی جانا ہوتا تو وہ سینکڑوں مریدوں کے ساتھ ذکر اللہ کی محفل سجائے ہوتے‘ ذکر اذکار سے فارغ ہونے کے بعد جونہی اس خاکسار پر نظر پڑتی تو ہونٹوں پر مسکان طاری ہو جاتی۔ جس کی وجہ سے ان کے چہرے کی نورانیت میں مزید اضافہ ہو جاتا‘ اس خاکسار کوبڑی محبت سے اپنے کمرے میں لے جاتے‘ اور پھر اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد والا شربت تیار کرکے نوش کرنے کے لئے عطا فرماتے‘ چند سال پہلے منکرین ختم نبوتؐ کے بعض آلہ کاروں نے رو زنامہ اوصاف کی مقبولیت اور دینی حلقوں میں پذیرائی سے گھبرا کر چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان صاحب کے خلاف ہفوات بھری مہم چلائی …اور ان کے خلاف قادیانی ہونے کے جھوٹے الزامات والے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کروائے… عاشق رسول مہتاب خان پر لگائے جانے والے اس جھوٹے الزام کی خبر ان تک پہنچی‘ تو وہ تڑپ اٹھے… فوراً مجھے فون کیا اور  بے قرار لہجے میں اصل صورتحال کے بارے میں پوچھا؟ اس عاجز نے تفصیل بتائی تو فوراً فرمایا کہ چیف  ایڈیٹر اوصاف دفتر کب آتے ہیں؟ عرض کیا… صبح دس بجے  سے ساڑھے دس کے درمیان  آنے کا معمول ہے‘ فرمانے لگے کہ گو کہ سیڑھیاں چڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے مگر میں کل ضرور آئوں گا اور پھر اگلے دن ایسا ہی ہوا‘ وہ آبپارہ میں اوصاف دفتر کے سامنے علماء کے ہمراہ پیرانہ سالی باوجود پہنچ چکے تھے‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ چیف صاحب کی حوصلہ افزائی اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی فون پر ہی فرما دیتے… فرمانے لگے ’’میں یہ بھی کر سکتا تھا لیکن میں آپ کے چیف ایڈیٹر سے خود اس لئے ملنا چاہتا تھاتاکہ وہ قادیانیوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کریں… پھر وہ چیف ایڈیٹر مہتاب خان کے کمرے میں تشریف فرما ہوئے‘ وہاں عشق مصطفیﷺ میں ڈوبی ہوئی گفتگو فرمائی‘ چیف ایڈیٹر سمیت محفل میں موجود دیگر صحافی ساتھیوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی تلقین کی‘  مہتاب خان صاحب نے انہیں نیوز روم کا بھی دورہ کروایا… حضرت نے نیوز روم میں موجود صحافی ساتھیوں کو قریب بلا کر  نمازوں کی پابندی ور درود پاک کی محفلیں سجانے کی نصیحت فرمائی …اور پھر بڑے درد بھرے انداز میں دعا بھی کروائی‘ وہ غالباً بیس سالوں میں ایک مرتبہ ہی اوصاف دفتر تشریف لائے… لیکن پھر جب بھی میرے ساتھ ملاقات ہوتی یا فون پہ گفتگو ہوتی تو چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان صاحب کی صحت کے بارے میں ضرور پوچھتے اور فرماتے کہ میں ان کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں جو اپنے اخبار کو ختم نبوتؐ‘ تحفظ  ناموس رسالتؐ‘ تحفظ ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے لئے وقف کر دے… اس کے لئے دعا کرنا ہماری ذمہ داری ہے‘ انہیں نہ اخبار میں اپنا انٹرویو چھپوانے کا شوق تھا اور نہ ہی خبر چھپوانے کا‘ اس سارے عرصہ میں انہوں نے اس خاکسار سے اپنی خبر یا  ذاتی تشہیر کے حوالے سے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا… ہاں البتہ ان کی تڑپ یہ تھی کہ  عالمی صہیونی قوتوں نے میڈیا کے ذریعے جو اسلامی تہذیب اور اسلامی احکامات کے خلاف یلغار کر رکھی ہے … میڈیا میں سے ہی کوئی اٹھے اور اسے صیہونی یلغار کے راستے میں مزاحم ہو جائے‘ انہوں نے عشق مصطفیﷺ  سے سرشار طبیعت پائی تھی‘ وہ  ولی کامل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ مجاز تھے… حرمین شریفین کی پاکیزہ فضائوں میں وہ اپنے پیرومرشد کی والہانہ خدمت کا ذائقہ بھی چکھ چکے تھے… وہ ’’ذکر اللہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کو کائنات کی روح اور مومن کا ہتھیار قرار دیا کرتے تھے‘ اس لئے وہ کے پی کے‘ پنجاب‘ آزادکشمیر‘ گلگت‘ بلتستان‘ سندھ‘ بلوچستان ہی نہیں بلکہ سعودی عرب‘ عراق‘ لبنان‘ برطانیہ‘ جنوبی افریقہ‘ افغانستان‘ انڈیا‘ تاجکستان‘ بخارا‘ ثمرقند‘ لیبیاء سمیت جس ملک میں بھی گئے وہاں ذکر اللہ کی مجالس اور درود پاک کی محفلیں سجاتے چلے گئے… آپ فرمایا کرتے تھے کہ علماء کی ذمہ داریاں صرف مدرسہ کی چار دیواری تک ہی محدود نہیں بلکہ وارثان انبیاء علہیم السلام کی اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے‘ چنانچہ آپ نے خانقاہ‘ مدرسہ‘ درس و تدریس دعوت و تبلیغ‘ سلوک و ارشاد انسانوں کی فلاح و بہبود اور ویلفیئر کے ساتھ‘ ساتھ … قلمی اور عملی جہاد میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ملک ابرار جیسے ایم این اے یا جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر طلحہ محمود … غرضیکہ پیپلزپارٹی والے ہوں یا دیگر سیاسی جماعتوں کے وابستگان سب ہی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے‘ آپ سیاسی اور مسلکی جکڑنوں سے بالاتر ہو کر ہر انسان کو محبت دیتے اور انہیں ذکر اللہ  اور درود پاک کی محفلیں سجانے کی ترغیب دیتے‘ آئین میں موجود اسلامی شقوں‘ تحفظ ختم نبوتؐ اور ناموس رسالتؐ کی حفاظت کی خاطر دبنگ انداز میں جرات مندانہ موقف اپنانے پر آپ مولانا فضل الرحمن کے بہت زیادہ قریب تھے۔

(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ اوصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے